کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 490
باوجودکہ انھوں نے دو حافظوں (امام حاکم رحمہ اللہ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ ) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے رجاء کے موضوع روایات بیان کرنے کی گواہی دی ہے۔‘‘ (لسان المیزان: ۲/۴۵۷)
بلاشبہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے امام حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح پر سکوت کیا ہے۔ المستدرک (۴/ ۱۲۹)۔ اور میزان الاعتدال (۲/ ۴۶ ترجمہ: ۲۷۶۴) میں وہی بات نقل کی ہے جس کی طرف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے۔ گویا تلخیص المستدرک میں امام ذہبی رحمہ اللہ کا سکوت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں موافقت کی دلیل ہے۔
3۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
’’أخرج لہ الحاکم في المستدرک وسکت عنہ الذھبي في تلخیصہ‘‘ (لسان المیزان: ۴/ ۱۸۲، ترجمہ: العلاء بن إسماعیل)
یہاں بھی حسبِ سابق امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام حاکم رحمہ اللہ کا تعاقب نہیں کیا۔ (المستدرک: ۱/ ۲۲۶)
4۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وقد أخرج لہ الحاکم في المستدرک، فقال: ثقۃ مأمون ولم یتعقبہ المؤلف في تلخیص المستدرک‘‘(لسان المیزان: ۲/ ۴۳۴، ترجمہ: دینار أبو سعید)
بلاشبہ حافظ ابن حجر کی بات درست ہے۔ (المستدرک: ۳/ ۱۲۴)
5۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’وقد أخرج الحاکم حدیثہ في المستدرک من ہذا الوجہ، وقال: صحیح ولم یتعقبہ الذھبي‘‘
(لسان المیزان: ۷/ ۳۷، ملاحظہ ہو: المستدرک: ۴/ ۳۱۶، ۴۳۴)