کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 488
حافظ زیلعی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’قال (الحاکم): صحیح الإسناد ولم یخرجاہ، انتھی، وأقرہ الذھبي علیہ‘‘ (نصب الرایۃ: ۴/ ۱۶۱) یعنی امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی رائے کو برقرار رکھا ہے۔ اگر یہ نسخ کا اختلاف اور صرفِ نظر کا شاخسانہ نہیں تو حافظ زیلعی کا وہم ہے۔ کیونکہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے تو اس مقام پر بایں الفاظ امام حاکم رحمہ اللہ کی تردید کی ہے: ’’صحیح، قلت: أبوحماد ھو المفضل بن صدقۃ، قال النسائي: متروک‘‘ (المستدرک: ۲/ ۱۲۰) ’’یہ روایت صحیح ہے، میں (ذہبی رحمہ اللہ ) کہتا ہوں: ابو حماد کا نام مفضل بن صدقہ ہے۔ جسے نسائی رحمہ اللہ نے متروک قرار دیا ہے۔ ‘‘ بنابریں حافظ زیلعی رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا قول محلِ نظر ہے۔ تا ہم انھوں نے تین مرتبہ لم یتعقبہ الذہبي کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ (نصب الرایۃ: ۳/ ۳، ۳۸، ۸۰) جس سے معلوم ہوا کہ وہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے عدمِ تعاقب کو موافقت قرار دیتے تھے۔ حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ حافظ زیلعی کے بعد حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ (۸۰۴ھ) ’’مختصر استدراک الحافظ الذھبي علی مستدرک أبي عبد اللّٰہ الحاکم‘‘ میں ایک حدیث کے بعد لکھتے ہیں: ’’قال: صحیح الإسناد ولم یخرجاہ، قلت: أقرہ الذھبی علیہ‘‘(مختصر استدراک الحافظ الذھبي: ۱/ ۵۶۹)