کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 483
إیماناً…‘‘ بدونِ تبصرہ بیان کی تو حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’قلت: لم یتکلم علیہ المؤلف وھو صحیح‘‘ ’’میں کہتا ہوں: مؤلف نے اس حدیث پر حکم نہیں لگایا حالانکہ یہ روایت صحیح ہے۔‘‘ (المستدرک: ۱/ ۳) 3۔ المستدرک میں ذکر کردہ حدیث شرطِ شیخین یا صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی شرط پر نہیں ہوتی یعنی وہ حدیث یا راوی ان کتب میں موجود ہوتا ہے۔ گویا وہ المستدرک کی شرط پر نہیں۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ’’افترقت الیھود…‘‘ بیان کی اور فرمایا: ’’مسلم نے محمد بن عمرو، عن ابی سلمہ، عن أبی ہریرہ سے احتجاجاً روایت لی ہے۔ بخاری و مسلم فضل بن موسیٰ سے احتجاجاً روایت لینے میں متفق ہیں اور فضل ثقہ ہیں۔‘‘ حافظ ذہبی رحمہ اللہ ان کی تردید میں فرماتے ہیں: ’’قلت: ما احتج (م) بمحمد بن عمرو منفرداً بل بانضمامہ إلی غیرہ‘‘ ’’میں کہتا ہوں: مسلم نے محمد بن عمرو کی انفرادی روایت بطورِ دلیل نہیں لی بلکہ متابع کے طور پر ذکر کی ہے۔‘‘ (المستدرک: ۱/۶) اس قسم کی دوسری مثال یہ ہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث: ’’الجرس مزمار الشیطان‘‘ ذکر کی اور فرمایا: ’’ہذا حدیث صحیح علی شرطِ مسلم ولم یخرجاہ ‘‘ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’قلت خرجہ مسلم بھذا السند‘‘(المستدرک: ۱/ ۴۴۵) یہ حدیث صحیح مسلم (۲۱۱۴) میں ہے۔ مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ المستدرک