کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 480
سے امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ نے احتجاج (استدلال) کیا ہو۔‘‘ (مقدمۃ المستدرک للحاکم: ۱/ ۲۔۳)
ان کی اس کتاب کی تلخیص آٹھویں صدی ہجری کے نامی گرامی محدث حافظ ذہبی رحمہ اللہ (۷۴۸ھ) نے کی ہے۔ جو بیروت، لبنان سے مطبوع المستدرک کے حاشیے میں شائع ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ خلاصہ کی ابتدا میں فرماتے ہیں:
’’یہ حافظ ابو عبداللہ حاکم کی کتاب المستدرک علی الصحیحین کا خلاصہ ہے۔ جس کے ملخص حافظ ذہبی رحمہ اللہ ہیں۔ انھوں نے متون ذکر کر کے اسانید کو حذف کیا ہے اور ان پر کلام کیا ہے۔‘‘ (تلخیص المستدرک: ۱/ ۲)
صاحبِ تلخیص دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’یہ سود مند کتاب ہے جس کا خلاصہ میں نے ذکر کیا ہے۔ ‘‘ (سیر أعلام النبلاء: ۱۷/ ۱۷۶)
مزید فرمایا:
’’میں نے المستدرک کے اختصار میں ان (ضعیف اور منکر روایات) کی نشاندہی کی ہے۔‘‘(تاریخ الإسلام للذھبي، حوادث و وفیات ۴۰۱۔۴۲۰ھ،ص: ۱۳۲)
ان تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص کی ہے اور اسے ہی مقدم رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بسا اوقات وہ صاحبِ المستدرک کا تعاقب بھی کرتے ہیں۔ مگر بیش تر وہ حاصلِ کلام ہی ذکر کرتے ہیں۔ ان کے اس طرزِ عمل کو علمائے کرام ’’أقرہ الذھبي، وافقہ الذھبي‘‘ اور ’’سکت عنہ الذھبي‘‘ جیسی اصطلاحات سے تعبیر کرتے ہیں کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا اس حدیث پر کلام نہ کرنا امام حاکم رحمہ اللہ کی موافقت کی دلیل ہے۔ اسی رائے کا تجزیہ ہم آئندہ سطور میں پیش کریں گے۔