کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 477
حافظ صاحب کے مذکورہ بالا تینوں اقوال مخالفۃ الثقۃ کے حکم کے بارے میں ہیں، جیسا کہ انھوں نے نخبۃ الفکر اور ہدی الساری میں وضاحت کی ہے کہ اگر کوئی ثقہ یا صدوق راوی جماعت کی مخالفت کرے یا اپنے سے اوثق کی مخالفت کرے یا کسی ایسے راوی کی مخالفت کرے جس میں ان وجوہِ ترجیح کے علاوہ کوئی اور وجۂ ترجیح پائی جاتی ہے تو اس کی وہ روایت شاذ ہوگی۔ اور اگر ضعیف راوی اپنے سے اعلیٰ کی مخالفت کرے تو اس کی روایت منکر ہوگی۔ اب حافظ صاحب کا زیادۃ الثقہ کے بارے میں قول ملاحظہ فرمائیں۔ جسے شیخ زبیر صاحب النکت والے قول سے متعارض قرار دے رہے ہیں! چنانچہ حافظ صاحب فرماتے ہیں: ’’(وزیادۃ راویھما) أي الحسن والصحیح (مقبولۃ ما لم تقع منافیۃ لما لروایۃ من (ھو أوثق) ممن لم یذکر تلک الزیادۃ‘‘(نخبۃ الفکر، ص: ۴۶) اس عبارت کا ترجمہ شیخ زبیر صاحب کے قلم سے ملاحظہ ہو: ’’اور صحیح و حسن حدیث کے راوی کی زیادت مقبول ہے، بشرط کہ وہ اپنے سے زیادہ ثقہ کے منافی نہ ہو، جس نے یہ زیادت ذکر نہیں کی۔‘‘ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۷، ص: ۱۱) قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہاں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ زیادۃ الثقہ کا حکم بیان فرما رہے ہیں، مگر اس کے ساتھ انھوں نے قیدِ احترازی بھی ذکر کر دی ہے کہ زیادۃ الثقہ والصدوق جب اوثق کی روایت کے مخالف ہو تو تب ناقابلِ تسلیم ہے، گویا من وجہٍ ان کا یہ قول النکت والے قول کی تایید کر رہا ہے۔ فتدبر۔ لہٰذا ان اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہے۔