کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 476
دوسرا قول: ان کے اسی قول کی توضیح نخبۃ الفکر میں ’’شاذ‘‘ کی تعریف میں مذکور ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ’’(فإن خولف بأرجح) منہ لمزید ضبط أو کثرۃ عدد أو غیر ذلک من وجوہ الترجیحات (فالراجح)، یقال لہ: (المحفوظ ومقابلہ) وھو المرجوح، یقال لہ: (الشاذ)‘‘ (نخبۃ الفکر، ص: ۴۹) ’’اگر وہ (ثقہ اور صدوق راوی) اپنے سے ارجح کی مخالفت کرے (۱).ضبط کی زیادتی۔(۲).یا کثرتِ تعداد۔(۳).یا ان کے علاوہ کسی اور وجوہِ ترجیحات میں تو ان میں سے راجح کو محفوظ کہا جائے گا۔ اور اس کا مقابل مرجوح ہوگا، جسے شاذ کہا جائے گا۔‘‘ تیسرا قول: ان دونوں اقوال سے زیادہ سہل عبارت اور عمدہ تعبیر کے ساتھ ان کا قول مقدمہ فتح الباری میں موجود ہے: ’’وأما المخالفۃ وینشأ عنھا الشذوذ والنکارۃ۔ فإذا روی الضابط والصدوق شیئاً، فرواہ من ھو أحفظ منہ، أو أکثر عدداً بخلاف ما روی۔ بحیث یتعذر الجمع علی قواعد المحدثین فھذا شاذ‘‘ ’’اور رہی مخالفت، اسی سے شذوذ اور نکارت وجود میں آتی ہے۔ پس جب ضابط (ثقہ) اور صدوق راوی کسی روایت کو اپنے سے (۱)احفظ (اوثق)۔ (۲)یا کثیر تعداد کی روایت کے خلاف بیان کرے اور اس میں محدثین کے قواعد کے مطابق تطبیق بھی ممکن نہ ہو تو وہ شاذ ہے۔‘‘