کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 475
ہے۔ زیادۃ الثقہ مقبول ہے، مگر جب وہ مخالفت کی صورت اختیار کر لے تو وہ ناقابلِ اعتبار ہے۔ یہی وہ اساسی فرق ہے، جسے محترم زبیر صاحب پیشِ نظر نہ رکھ سکے، حالانکہ اہلِ اصطلاح کے کلام کو سمجھنے کے لیے سیاق و سباق کو ملحوظِ خاطر رکھنا انتہائی ضروری ہے، جیسا کہ علامہ زرکشی رحمہ اللہ اور علامہ عز الدین بن عبدالسلام رحمہ اللہ نے بھی اس کی تصریح کی ہے۔ البحر المحیط للزرکشی (۶/ ۵۲) بلکہ سیاق و سباق کو معلوم کرنے کی اہمیت پر اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ جتنی دیر تک اس کا استیعاب نہیں کیا جاتا تب تک نص کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرنی چاہیے۔ اگر وہ بھی کلام کے سیاق کو پیشِ نظر رکھتے تو یقینا اس غلط فہمی کا شکار نہ ہوتے! پہلا قول: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ النکت میں فرماتے ہیں: ’’ان ائمہ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ اس حافظ متقن کی زیادتی مقبول ہوگی جسے جماعت کی برابری کی حیثیت ہو۔ اور اگر (۱).زیادتی نہ نقل کرنے والی جماعت ہو۔(۲).یا ان میں کوئی ایسا راوی ہو جو زیادتی ذکر کرنے والے سے احفظ ہو۔ یا زیادتی ذکر کرنے والا غیر حافظ ہو اگرچہ وہ صدوق ہو تو اس (حافظ، متقن اور صدوق غیر حافظ) کی زیادتی مقبول نہیں۔‘‘(النکت لابن حجر:۲/ ۶۹۰) گویا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ثقہ اور صدوق کی جماعت یا اوثق، اضبط سے مخالفت کا حکم بیان فرما رہے ہیں، مطلق طور پر زیادۃ الثقہ کا حکم بیان نہیں فرما رہے۔