کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 474
زیادۃ الثقۃ اور مخالفۃ الثقۃ میں تفریق
ہم نے اپنے سابقہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ النکت (۲/ ۶۹۰) میں رقمطراز ہیں:
’’اگر وہ (زیادت کا) راوی صدوق ہو تو اس کی زیادت مقبول نہیں۔‘‘(الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۳۴، ص: ۱۳)
اس قول کے جواب میں محترم زبیر صاحب فرماتے ہیں:
’’صدوق راوی کی زیادت کو حسن سمجھنے کے لیے صرف نخبۃ الفکر کا حوالہ بھی کافی ہے، جو اسی مضمون میں با حوالہ [الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۷، ص: ۱۱] گزر چکا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول (النکت: ۲/ ۶۹۰) خود ان کے اپنے قول ’’شرح نخبۃ الفکر (ص: ۳۱۵) کے خلاف ہونے کی وجہ سے ساقط ہے۔‘‘ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۸، ص: ۲۹)
محترم نے ان کے النکت والے قول کو ساقط قرار دینے میں بڑی سرعت کا مظاہرہ کیا ہے۔ حالانکہ ان کے دونوں اقوال میں کوئی تعارض نہیں، کیونکہ وہ النکت میں صدوق راوی کی زیادت کو اس صورت میں رد کر رہے ہیں، جب وہ ثقہ، ثقات یا اوثق کی روایت کے مخالف ہو۔ اور نخبۃ الفکر والا قول زیادۃ الثقہ کے بارے میں ہے۔ چونکہ یہ دونوں علیحدہ صورتیں ہیں، جس بنا پر ان کا حکم بھی مختلف