کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 472
تیمی کی زیادت کو رد کیا ہے وہ اس تفریق کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
لأنہ قد وضح لھم دلائل علی أنھا وھم من بعض الرواۃ‘‘
’’کیونکہ ان محدثین پر دلائل کی روشنی میں واضح ہوگیا کہ یہ زیادت ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ راوی کا وہم ہے۔‘‘ (تحفۃ الأحوذي: ۱/ ۲۱۷)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’إن ظھرت لھم قرینۃ تدل علی أنھا وھم، فحینئذٍ لا یقبلونھا‘‘ (أبکار المنن، ص:۱۱۱)
’’اگر ان کے نزدیک کوئی قرینہ اس زیادت کے وہم ہونے پر دلالت کرے تو تب وہ اس کی زیادت کو قبول نہیں کرتے۔‘‘
موصوف ہی حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور زیادت ’’علی صدرہ‘‘ کے مقبول ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’ولم یحکم علیھا أحد من المحدثین النقاد بأنھا غیر محفوظۃ‘‘
’’اس زیادت ’’علی صدرہ‘‘ پر کسی بھی ناقدِ فن نے غیر محفوظ ہونے کا حکم نہیں لگایا۔‘‘ (أبکار المنن، ص: ۱۰۷)
گویا علامۃ الہند بھی زیادت کو قرائن کے تناظر میں پرکھتے ہیں۔ اگر شیخ زبیر صاحب اس اساسی فرق کو ملحوظ رکھ لیتے تو یقینا انھیں اتنی پریشانی نہ اٹھانی پڑتی!
قارئینِ کرام! ان دس مثالوں کا خلاصہ یہ ہے کہ محدثین زیادۃ الثقۃ کو مطلق طور پر قبول نہیں کرتے، بلکہ وہ اسے قرائن کے تناظر میں پرکھتے ہیں، اگر قرائن اس کے مقبول ہونے کے متقاضی ہوں تو وہ اسے قبول کرتے ہیں اور اگر رد کرنے کے متقاضی ہوں تو اسے شاذ، وہم وغیرہ کی بنا پر رد کر دیتے ہیں۔