کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 471
قارئینِ کرام! غور فرمائیں کہ محترم زبیر صاحب کے ہاں اس کا مقطوع ہونا بھی درست ہے تو پھر اسے زیادۃ الثقہ کے مقبول ہونے کی تایید میں پیش کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ کیونکہ مقطوع میں تو زیادۃ الثقہ نہیں ہے؟
آخری مثال:
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پانچوں نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کروائی۔ اس حدیث میں امام زہری کے شاگرد اسامہ بن زید اللیثی ’’ثم کانت صلاتہ بعد ذلک التغلیس حتی مات، ولم یعد إلی أن یسفر‘‘ بیان کرنے میں منفرد ہیں۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے بھی اس کے تفرد کی جانب اشارہ کیا ہے۔ اسے امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان اور امام حاکم رحمہم اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ مستدرک للحاکم میں اس حدیث کا حسن لذاتہ شاہد بھی موجود ہے۔ لہٰذا اسامہ بن زید کی حدیث صحیح ہے۔ نیموی نے اس زیادت کو غیر محفوظ قرار دیا ہے۔ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے ان کی تردید کی ہے۔
اگر اسامہ بن زید کی زیادت مقبول ہے تو سلیمان تیمی کی زیادت کیوں مقبول نہیں؟ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۸، ص: ۲۶۔ ۲۷ ۔ محصلہ)
انتہائی ادب سے عرض ہے کہ جس زیادت کو محدثین وہم قرار نہ دیں تو ہم بھی ان کی مخالفت کی جسارت نہیں کرتے۔ الحمد ﷲ! اور متذکرہ بالا زیادت کو محدثین نے صحیح قرار دیا ہے۔
رہا یہ کہ اگر اسامہ کی زیادت قبول ہے تو پھر سلیمان تیمی کی کیوں قبول نہیں؟ اس سوال کا جواب ہم محدث عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کی زبان سے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ انھوں نے بھی اسامہ کی زیادت کو قبول کیا ہے اور