کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 469
’’تنبیہ (1).: حدیثِ مذکور کو شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ معاصرین نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔‘‘ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۸، ص: ۲۵) انتہائی ادب سے عرض ہے کہ روایت کی تصحیح اور مسئلہ ہے اور السیلحینی کی مرفوع روایت کو صحیح قرار دینا اور مسئلہ ہے، اس لیے ان دونوں کو خلط کرنا محلِ نظر ہے۔ محدث البانی رحمہ اللہ بھی اس موصول روایت کو صحیح قرار دینے میں متردد ہیں جبکہ ان کا رجحان اس کے غیر صحیح ہونے کی طرف ہی معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ محدث احمد شاکر رحمہ اللہ پر تنقید کرتے ہوئے اور امام ترمذی رحمہ اللہ کے قول کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اگر یہ ثابت ہوجائے کہ جماعت اسے مرسل ہی روایت کرتی ہے (تو تب یحییٰ بن اسحاق السیلحینی کی موصول روایت مرجوح ہوگی)، کیونکہ جماعت، فردِ واحد سے احفظ ہوتی ہے۔ یہ تبھی ہوگا جب وہ ثقات ہوں گے اور مجھے مرسل بیان کرنے والے امام ابو داود رحمہ اللہ کے شیخ موسیٰ بن اسماعیل کے علاوہ کوئی اور راوی مل نہ سکا، صرف اسی نے اسے مرسل بیان کیا ہے، اگر اس کا کوئی متابع دستیاب ہو تو امام ترمذی رحمہ اللہ کا قول راجح ہوگا۔ بہر حال یہ حدیث صحیح ہے، کیونکہ اس کے ما بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بطورِ شاہد موجود ہے۔ اور مختصر قیام اللیل للمروزی (ص: ۹۳) میں اس کا دوسرا شاہد مرسل زید بن یُثیع بھی موجود ہے۔‘‘ (تحقیق سنن أبي داود: ۵/ ۷۵۔ ۷۶) قارئینِ کرام! امام البانی رحمہ اللہ کی اس نص پر غور کیجیے کہ وہ موصول روایت کو صحیح قرار دینے میں متذبذب ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کے قول کی روشنی میں ان کا