کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 465
اس میں ہشام بن عروہ سے امام حماد بن اسامہ ابو اسامہ ’’قالت: ولیستا بمغنیتین‘‘ کا جملہ روایت کرنے میں منفرد ہیں، جبکہ ہشام کے دیگر تلامذہ یہ جملہ ذکر نہیں کرتے۔ مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ بھی اس زیادت کو صحیح اور مقبول سمجھتے ہیں، لہٰذا معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک قولِ راجح میں متنِ حدیث میں ثقہ راوی کی زیادت مقبول ہے۔ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۷، ص: ۱۶ محصلہ)
عرض ہے کہ یہ زیادت اگرچہ حماد بن اسامہ ہی بیان کرتے ہیں، مگر یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کا قول ہے۔ جیسا کہ ’’قالت‘‘ مؤنث کا صیغہ بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ پھر کسی محدث نے اس جملہ کو ابو اسامۃ کا وہم قرار نہیں دیا، جبکہ اس کے برعکس امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے اس زیادت کو صحیحین میں ذکر کیا ہے۔
استاذ اثری حفظہ اللہ کا قرائن کا اعتبار کرنا:
رہا یہ موقف کہ مولانا اثری حفظہ اللہ کے نزدیک قولِ راجح میں ’’متنِ حدیث میں ثقہ راوی کی زیادت (مطلقاً) مقبول ہے‘‘ تو یہ دعویٰ توجیہ القول بما لا یرضیٰ بہ قائلہ کا مصداق ہے۔ کیونکہ استاذ محترم حفظہ اللہ بھی جمہور محدثین کی طرح زیادت کو قرائن کے تناظر میں پرکھتے ہیں، پھر اس کے مطابق اس کے غلط یا صحیح ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ انھوں نے ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ والی زیادت ناقدین کو بھی محدثین کی آرا کی روشنی میں غلط اور وہم قرار دیا ہے اور ان لوگوں کی تردید کی ہے جو اسے محفوظ کہتے ہیں۔
اب ابو اسامہ حماد بن اسامہ کی زیادت کے بارے میں ان کا فیصلہ ملاحظہ ہو:
’’ہشام کی روایت میں ابو اسامہ کا اضافہ (۱).ثقہ ثبت راوی کا ہے۔(۲).جو کسی لفظ کے منافی نہیں، اس لیے یہ بالکل صحیح ہے۔(۳).شیخین کا