کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 464
کی زیادت بلکہ تصریح کو درست سمجھتے ہیں، کیونکہ ناقدینِ فن بھی ایسی زیادت قبول کرتے ہیں۔
بلاشبہ زائدہ بن قدامۃ کے علاوہ کوئی اور راوی ’’یحرکھا‘‘ کا لفظ ذکر نہیں کرتا، تاہم دوسرے راوی یہی روایت ایسے الفاظ سے بیان کرتے ہیں، جن سے یہی مفہوم مترشح ہوتا ہے، جس کی تفصیل علامہ البانی رحمہ اللہ نے السلسلۃ الصحیحۃ (۷/ ۵۵۳) میں بیان کی ہے۔
اس لیے زائدہ بن قدامۃ کا یہ تفرد ہی نہیں۔ اگر محدث البانی رحمہ اللہ نے اسے شاذ کہنے والوں کا رد کیا ہے تو اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے؟
محدث البانی رحمہ اللہ نے حضرت وائل بن حجر رحمہ اللہ کی تقویت کے لیے مزید تین شواہد ذکر کیے ہیں، جن میں حضرت عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ اور حضرت خفاف بن ایماء رضی اللہ عنہ کی روایات ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں: ’’السلسلۃ الصحیحۃ (حدیث: ۳۱۸۱، تمام المنۃ، ص: ۲۱۴۔ ۲۲۲)
استفسار یہ ہے کہ ’’فأنصتوا‘‘ کا بھی کوئی قابلِ ذکر متابع موجود ہے یا کوئی معتبر شاہد موجود ہے جس طرح کہ زائدہ کے چار معنوی متابع اور تین شاہد موجود ہیں۔
باقی رہا کہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس زیادت کے تفرد کی طرف اشارہ کیا ہے تو اس سے مقصود محض اسی لفظ کا تفرد ہے، نکارت مراد نہیں، کیونکہ وہ خود اس لفظ سے استدلال کرتے ہوئے اس کے مطابق ترجمۃ الباب قائم کر رہے ہیں۔
ساتویں مثال:
صحیحین میں غنائے جاریتین والی روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔