کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 463
ذکر کے بعد امام ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فقد صح الحدیث بشواھدہ، واللّٰه الحمد‘‘(البدر المنیر: ۲/ ۶۰۹) ’’یہ حدیث ’’أول وقتھا‘‘ اپنے شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا یہ قرائن اور تقویت کی نسبتیں ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کی زیادت میں بھی پائی جاتی ہیں؟ چھٹی مثال اور امام البانی رحمہ اللہ : حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی تشہد والی حدیث میں زائدہ بن قدامۃ نے انگشتِ شہادت کے حوالے سے ’’یحرکھا‘‘ کا لفظ زائد بیان کیا ہے۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے بھی یہ تصریح فرمائی ہے کہ یہ لفظ زائدہ کے علاوہ کوئی اور بیان نہیں کرتا۔ اس لفظ پر معاصرین نے کلام کیا ہے۔ مگر شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی تایید میں صحیح اور ضعیف جتنی روایات پیش کی ہیں، ان میں سے زائدہ کی روایت کے علاوہ کسی ایک میں بھی یحرکھا کا لفظ نہیں ہے۔ فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ نے محدث البانی کی اس تصحیح کو بطورِ حجت پیش کیا ہے۔ اور اس سے استدلال کیا ہے۔ لہٰذا محترم حافظ صاحب بھی ثقہ کی زیادت کو صحیح سمجھتے ہیں۔ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۷، ص: ۱۵۔ ۱۶ ۔ملخصاً) عرض ہے کہ ہم بھی دیگر محدثین کی طرح زیادۃ الثقہ کو قبول کرتے ہیں مگر اسی نہج پر جس پر محدثین قبول کرتے ہیں۔ اس لیے امام البانی رحمہ اللہ کا اس زیادت کو شاذ کہنے والوں کا رد کرنا اور استاذ العلماء فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ کا ان کی موافقت کرنا ہمیں چنداں مضر نہیں، کیونکہ ہم بھی ’’یحرکھا‘‘