کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 462
مقبول ہے۔ جب زیادت والی روایت کا کوئی مؤکد (ترجیح دینے والا) مل جائے جو اس روایت میں موجود مسئلہ کی تاکید کردے خواہ اس زیادت کو جماعت نے بیان نہ کیا ہو۔‘‘ (البدر المنیر لابن الملقن: ۲/ ۶۰۷، و مختصر الخلافیات لابن فرحون: ۱/ ۵۲۲) دوسرا قرینہ: پھر ’’میقاتھا‘‘ اور ’’أول وقتھا‘‘ کے معنی و مفہوم میں کوئی جوہری فرق بھی نہیں۔ محدثین نے ’’وقتھا‘‘ اور اس جیسے دوسرے الفاظ سے ’’أول وقتھا‘‘ کا معنی بھی سمجھا ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن بلبان رحمہ اللہ کی صحیح ابن حبان پر تبویب سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ حافظ الاشبیلی رحمہ اللہ نے بھی الأحکام الکبری (۱/ ۵۵۳) میں اسی عدمِ تفریق کو ملحوظ رکھا ہے۔ محدث البانی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی ان کا معنی ایک ہی ہے۔ (تحقیق سنن أبي داود: ۲/ ۳۰۶) دوسرے یہ کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی یہ تصریح کی ہے کہ عثمان بن عمر، مالک بن مغول سے روایت کرنے میں منفرد نہیں، بلکہ شعبہ سے روایت کرتے ہوئے علی بن حفص نے عثمان کی متابعت کی ہے۔ نیز ابو عمرو الشیبانی عن رجل من أصحاب النبي صلي اللّٰه عليه وسلم (ابن مسعود) سے اس زیادت کی اور بھی سند ہے۔ عثمان بن عمر سے الحسن بن مکرم البزار نے اسی طرح روایت کی ہے اور ابن مکرم کی متابعت محمد بن بشار بُندار نے کی ہے۔ اور یہ دونوں ثقہ راوی ہیں۔ دیکھیے: (البدر المنیر لابن الملقن: ۲/ ۶۰۶۔ ۶۰۸) تیسرا قرینہ: حدیث کے شواہد: تیسرے یہ کہ اس معنی کی روایات حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں، ان کے