کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 461
وہ ابن جریج کی زیادت کے بارے میں علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کا قول پیش کرتے ہیں، مگر تیمی کی زیادت کے بارے میں ان کے قول سے صرفِ نظر کیوں فرماتے ہیں؟ حالانکہ دونوں مقامات پر محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے محدثین کا دامن چھوڑا نہیں! پانچویں مثال اور قرائن کا اعتبار: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مالک بن مغول سے روایت کرتے ہوئے عثمان بن عمر ’’الصلاۃ في أول وقتھا‘‘ کے الفاظ بیان کرتے ہیں، جبکہ مالک بن مغول کے دیگر تلامذہ ’’اول‘‘ کا لفظ ذکر نہیں کرتے۔ ولید بن عیزار سے مالک بن مغول کے علاوہ شعبہ، مسعودی، ابو یعفور وغیرہ بھی ’’اول‘‘ کی زیادتی بیان نہیں کرتے۔ ’’أول‘‘ والی روایت کو امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام حاکم، اور امام ذہبی! نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور یہ ’’أول وقتھا‘‘ والی روایت صحیح ہے۔ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۷، ص: ۱۵۔ ملخصاً) پہلا قرینہ: عرض ہے کہ متذکرہ بالا مصححینِ حدیث، ما سوائے امام ذہبی، کی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی ’’الخلافیات‘‘ میں اس زیادت کو قرائن کی بنا پر قبول کیا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’الزیادۃ من الثقۃ مقبولۃ عندھما وعند الفقھاء، إذا انضم إلی روایۃ ما یؤکدھا، وإن کان الذي لم یأت بہ أکثر عدداً‘‘ ’’زیادۃ الثقہ ان دونوں (امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ ) کے ہاں