کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 459
حضرت عبادۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ’’خلف الإمام‘‘ کا اضافہ محمد بن یحییٰ الصفار نے کیا ہے۔ اور مولانا اثری حفظہ اللہ نے اس زیادت کو صحیح کہا ہے اور توضیح الکلام میں امام بیہقی، سیوطی، اور متقی ہندی رحمہم اللہ سے تصحیح بھی نقل کی ہے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں، مگر خبیب صاحب اس کی بالکل مخالف سمت پر بڑی تیزی سے رواں دواں ہیں۔ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۷، ص: ۱۳ محصلہ) گویا ’’خلف الإمام‘‘ زیادت کی کوئی اصل تو موجود ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کی اصل دنیا میں موجود ہے، جسے محدثین نے تسلیم کیا ہو؟ رہا یہ الزام کے راقم کبار کی ’’مخالف سمت پر تیزی سے رواں دواں‘‘ ہے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ احادیث کی تصحیح اور تعلیل میں ہمارا منہج وہی ہے جو ہمارے جلیل القدر اور جہابذہ محدثین کا ہے اور ہم انھیں کے نقشِ قدم پر رواں دواں رہنے کو اپنے لیے باعثِ افتخار سمجھتے ہیں۔ اس لیے قطعاً ہم یہ جسارت نہیں کر سکتے کہ ان کے خلاف کوئی فیصلہ دیں یا ان کی رائے کو مرجوح قرار دیں اور اپنی رائے کو راجح قرار دینا پسند کریں۔ حاشا وکلّا تیسری مثال: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزولِ دنیا کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مروی ہے، جس میں احمد بن ابراہیم نے ’’من السماء‘‘ کا اضافہ کیا ہے اور اس اضافے کو امام بیہقی نے ’’الأسماء والصفات‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۷، ص: ۱۴، محصلہ) نہایت ادب سے استفسار ہے کہ کس محدث نے اس زیادت کو وہم قرار دیا ہے؟