کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 457
کے خطا، نسیان یا وہم پر بھی دلالت نہ کرے یعنی اس زیادت کو ایک مستقل حدیث ایسی اساسی حیثیت حاصل ہو تو وہ زیادت بلاشبہ قابلِ قبول ہوگی۔‘‘ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۳۴، ص: ۱۱)
اگر وہ ہمارے موقف کے اس جملے ’’اگر وہ (زیادت) منافی نہ ہو اور کوئی قرینہ اس زیادت کے خطا، نسیان یا وہم پر بھی دلالت نہ کرے...۔‘‘ پر رُک کر تھوڑا سا غور و فکر فرما لیتے تو یقینا ان مثالوں کو پیش کرنے میں اتنی کلفت نہ اٹھاتے، کیونکہ جس زیادت کو متقدمین محدثین غلط، وہم یا نسیان قرار نہ دیں، اس کے قبول ہونے میں کسی قسم کا کوئی شائبہ نہیں ہونا چاہیے۔ اب ان امثلہ کا تجزیہ پیشِ خدمت ہے۔
پہلی مثال اور علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ :
محترم زبیر صاحب کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ہلب الطائی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں امام یحییٰ بن سعید القطان نے ’’علی صدرہ‘‘ کا اضافہ کیا ہے جو امام سفیان کے علاوہ دوسرے نہیں بیان کرتے۔ محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے نیموی صاحب کا بڑا مضبوط اور زبردست رد کیا ہے۔ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۷، ص: ۱۲۔ ۱۳)
اس مثال کے حوالے سے عرض ہے کہ محدثین نے امام العلل ابن القطان رحمہ اللہ کی زیادت کو وہم قرار نہیں دیا۔ لہٰذا اسے اساسی حیثیت دیتے ہوئے قبول کیا جائے گا۔
باقی رہا محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کا ’’مضبوط اور زبردست رد‘‘ تو وہ ملاحظہ ہو، چنانچہ وہ اس زیادت کے بارے میں رقمطراز ہیں:
’’وکذلک زیادۃ ’’علی صدرہ‘‘ محفوظۃ مقبولۃ، لأنھا لیست منافیۃ لروایۃ من لم یزدھا، ولم یحکم علیھا أحد من المحدثین النقاد بأنھا غیر محفوظۃ‘‘ (أبکار المنن، ص: ۱۰۷)
ان کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’علی صدرہ‘‘ ایسی زیادت ہے، جس پر