کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 455
کے قول پر مطلع ہوئے تو انھوں نے بھی خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے اس قول کو اسی طرح سمجھا جیسا کہ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے سمجھا ہے۔ اور خطیب بغدادی رحمہ اللہ پر تنقید کی کہ وہ سند میں زیادۃ الثقہ کو مطلق طور پر قبول کرتے ہیں۔ یہ متقدمین حفاظ کا منہج نہیں، بلکہ اصولیوں کی کتب سے مأخوذ ہے۔ ان کا یہ موقف خود ان کی کتاب ’’تمییز المزید‘‘ کے خلاف ہے۔ لہٰذا خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی اس بارے میں آرا متصادم ہیں۔ (شرح علل الترمذي لابن رجب: ۲/ ۶۳۷۔ ۶۳۸)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اپنے پہلے قول میں ’’ضابطاً للروایۃ‘‘ کی شرط سے موصول روایت کو اختلاف کی صورت میں ترجیح دی ہے۔ ان کی کتاب تمییز المزید بھی اس مسئلہ میں نص ہے کہ ان کے ہاں زیادت کا حکم یکساں نہیں ہے۔ جبکہ تیسرے قول میں تو وہ مرسل روایت کو موصول پر ترجیح دے رہے ہیں۔ اس لیے ان کا وہی موقف معلوم ہوتا ہے جو دیگر ناقدین کا ہے۔ ان دونوں ائمہ کا ان پر تنقید کرنا قابلِ غور ہے۔ واللہ اعلم
قارئینِ کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ امام شافعی، امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابو حاتم، امام ابو زرعہ الرازی، امام ابن خزیمہ، امام حاکم، امام ذہبی، حافظ ابن حجر، حافظ خطیب بغدادی رحمہم اللہ زیادۃ الثقہ میں قرائن کا اعتبار کرتے ہیں، جن کی بنا پر انھوں نے بعض زیادات کو رد بھی کیا ہے۔ جس کی معمولی سی جھلک آپ اوپر ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی محدثین ہیں جن کے بارے میں محترم زبیر صاحب کا دعوی ہے کہ وہ زیادۃ الثقہ بدونِ منافات کو مطلق طور پر قبول کرتے ہیں۔
صرف امام ابن حزم رحمہ اللہ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ زیادۃ الثقہ کو مطلق طور پر قبول کرتے ہیں۔