کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 454
انھوں نے مرسل روایت کو ترجیح دی ہے۔ چنانچہ موصوف فرماتے ہیں: ’’ومنھم من یکتبھا علی معنی المعرفۃ لعلل المسندات بھا، لأن في الرواۃ من یسند حدیثا یرسلہ غیرہ، ویکون الذي أرسلہ أحفظ وأضبط فیجعل الحکم لہ۔ وقد قال أحمد بن حنبل مثل ھذا‘‘ ’’بعض محدثین مراسیل کو بطورِ معرفت لکھتے ہیں، تاکہ ان کی بدولت موصول احادیث کو معلول قرار دیا جائے، کیونکہ جس حدیث کو بعض راوی موصول بیان کریں اسی کو دوسرے مرسل بیان کرتے ہیں اور جو مرسل بیان کرتے ہیں وہ احفظ اور اضبط ہوتے ہیں اس لیے یہی مرسل راجح ہوتی ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح فرمایا ہے۔‘‘ (الکفایۃ للخطیب: ۲/ ۴۵۵) اس قول سے معلوم ہوا کہ موصوف بھی مرسل روایت کو موصول پر ترجیح دیتے ہیں۔ جب مرسل کا راوی احفظ اور اضبط ہو۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے ان دونوں اقوال اور ان کی کتاب ’’تمییز المزید في متصل الأسانید‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادۃ الثقہ کو قرائن کے تناظر میں پرکھتے ہیں۔ اور اسی کے مطابق فیصلہ دیتے ہیں۔ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے اسرائیل کی زیادت کے حوالے سے خطیب کا قول دیکھا اور ’’المزید في متصل الأسانید‘‘ کتاب دیکھی تو اپنے فہم کی وجہ سے دونوں میں تعارض پایا اور ان کے الکفایۃ والے قول کو فقہ اور اصولِ فقہ میں درست قرار دیا، کیونکہ اصولیوں کے ہاں زیادۃ الثقہ مطلق طور پر مقبول ہے۔ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ جب خطیب بغدادی رحمہ اللہ اور حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ