کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 453
نہیں ہوتا، جیسا کہ حافظ بدر الدین زرکشی، حافظ ابن رجب اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ نے تصریح کی ہے۔
اس لیے یہ دعویٰ کرنا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا قول سے خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے سند میں زیادۃ الثقہ کے مطلقاً قبول ہونے کا نظریہ أخذ کیا ہے، محلِ نظر ہے۔ جس کی تردید آئندہ آنے والی دو دلیلوں سے بھی ہوتی ہے۔
خطیب کے ہاں زیادۃ الثقہ کی دو قسمیں:
دوسری دلیل یہ ہے کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اسانید میں زیادۃ الثقہ کے حوالے سے ایک کتاب تصنیف فرمائی، جس کا نام ’’تمییز المزید في متصل الأسانید‘‘ رکھا، اس کتاب میں زیادۃ الثقہ کے حوالے سے دو قسمیں بنائیں۔ پہلی قسم میں ان اسانید کو درج کیا، جن میں زیادۃ الثقہ مقبول ہے اور دوسری قسم میں ان اسانید کو ذکر کیا جن میں زیادۃ الثقہ لائقِ التفات نہیں۔
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
’’وقد صنف في ذلک الحافظ أبوبکر الخطیب مصنفا حسناً سماہ ((تمییز المزید في متصل الأسانید)) وقسمہ قسمین: أحدھما: ما حکم فیہ بصحۃ ذکر الزیادۃ في الإسناد وترکھا۔ والثاني: ما حکم فیہ برد الزیادۃ وعدم قبولھا‘‘(شرح علل الترمذي لابن رجب: ۲/ ۶۳۷۔ ۶۳۸)
یہ بالکل واضح دلیل ہے کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ زیادۃ الثقہ میں قرائن کو پیشِ نظر رکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔
خطیب کا زیادۃ الثقہ کو رد کرنا:
اس حوالے سے تیسری دلیل خود حافظ بغدادی رحمہ اللہ کا قول ہے، جس میں