کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 452
ہو یا جماعت، یہی قول ہمارے نزدیک صحیح ہے۔‘‘(الکفایۃ للخطیب البغدادی: ۲/ ۴۹۹) حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ اس قول سے یہ سمجھے کہ وہ سند میں زیادۃ الثقہ کو مطلق طور پر قبول کرتے ہیں، حالانکہ یہ فہم قابلِ غور ہے، کیونکہ انھوں نے ’’ضابطاً للروایۃ‘‘ کی قید لگائی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کے ہاں اس وقت موصول روایت کو مقدم کیا جائے گا، جب اسے بیان کرنے والے نے صحیح ضبط کیا ہوگا۔ اس کے بعد اس کی مخالفت مضر نہ ہوگی، خواہ جو بھی اس کی مخالفت کرے اور جتنے بھی مخالفت کریں۔ انھوں نے یہ بات ’’لا نکاح إلا بولي‘‘ کے تناظر میں کہی ہے۔ جسے یونس بن ابی اسحاق السبیعی، اسرائیل بن یونس اور قیس بن الربیع تینوں ابو اسحاق سے مسند اور موصول بیان کرتے ہیں۔ جبکہ سفیان ثوری اور شعبہ بن الحجاج اسے ابو اسحاق سے مرسل بیان کرتے ہیں۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اس کے موصول ہونے کو ترجیح دی ہے، جس کا قرینہ انھوں نے بایں الفاظ بیان کیا ہے: ’’إسرائیل ھو أثبت في أبي إسحاق‘‘ (الکفایۃ: ۲/ ۵۰۳) ’’اسرائیل، ابو اسحاق سے روایت کرنے میں اثبت الناس ہے۔‘‘ پھر خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اپنی تایید میں امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول ذکر کیا: ’’ثقہ کی زیادت مقبول ہے، اسرائیل بن یونس ثقہ ہیں، اگرچہ شعبہ اور ثوری نے اسے مرسل بیان کیا ہے، مگر یہ ارسال حدیث کی صحت کے لیے مضر نہیں ہے۔‘‘ (الکفایۃ: ۲/ ۵۰۳) پہلے آپ ’’امام بخاری رحمہ اللہ ‘‘ کے عنوان کے تحت پڑھ آئے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے اس قول سے سند میں زیادۃ الثقہ کا مطلق طور پر قبول ہونا ثابت