کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 450
حاکم رحمہ اللہ کی ذکر کردہ سند کو مختصر طور پر بیان کرتے ہیں اور حدیث عام طور پر مکمل بیان کرتے ہیں، ان دونوں کے ساتھ ساتھ وہ امام حاکم رحمہ اللہ کے کلام کا خلاصہ بھی بیان کر دیتے ہیں، بسا اوقات لفظ ’’قلت‘‘ کے ساتھ اپنا حقِ رائے بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ تلخیص المستدرک میں امام ذہبی رحمہ اللہ کے سکوت کو امام حاکم رحمہ اللہ کی موافقت باور کرانا ہمارے نزدیک بڑا مغالطہ ہے، بنا بریں ’’صححہ الحاکم ووافقہ الذہبی‘‘ جیسی اصطلاح کا مطلق استعمال بھی محلِ نظر ہے، جس کی تفصیلات ہمارے مضمون ’’صححہ الحاکم ووافقہ الذہبي کا تحقیقی جائزہ‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ذہبی کا سکوت امام حاکم کی موافقت نہیں ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ بھی دیگر محدثین کی طرح زیادت کو قرائن کے تناظر میں پرکھتے ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ’’اگر کسی حدیث کو ثبت راوی مسند بیان کرے یا اسے موقوف بیان کرے یا اسے مرسل بیان کرے اور اس کے دیگر اثبات رفقا اس کی مخالفت کریں تو اعتبار اسی کا ہوگا جس پر ثقات جمع ہوں گے، کیونکہ اکیلا راوی کبھی خطا کر جاتا ہے اور جب کسی جگہ اس کا غلط ہونا راجح ہو وہاں کسی تأویل کی گنجائش نہیں ہے اس لیے جماعت کی روایت کا اعتبار ہوگا۔‘‘ (الموقظۃ للذھبی، ص: ۵۲، کفایۃ الحفظۃ شرح المقدمۃ الموقظۃ للشیخ سلیم الھلالي، ص: ۲۲۸۔ ۲۲۹) و شرح موقظۃ الذہبی للشریف حاتم العونی، ص: ۱۴۰۔ ۱۴۱) امام ذہبی رحمہ اللہ کا یہ قول ان کی مصطلح الحدیث پر مشتمل کتاب میں مذکور ہے۔ جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ اس کی دلالت اظہر من الشمس ہے۔