کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 449
فرمانِ نبوی ہے یا امام قتادہ کا قول یعنی فتوی ہے؟ شیخین کے ہاں تو یہ فرمانِ نبوی ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کا دفاع کیا ہے۔ متأخرین نے بھی اس زیادت کو قتادہ کا قول اور فتویٰ قرار دیا ہے جن میں امام دارقطنی رحمہ اللہ (کتاب التتبع، ص: ۱۴۹۔ ۱۵۱، سنن الدارقطني: ۴/ ۱۲۵، ۱۲۶، علل الأحادیث ۱۰/ ۳۱۳۔ ۳۱۸، سوال: ۲۰۳۱) اور حافظ ابو مسعود الدمشقی رحمہ اللہ (کتاب الأجوبۃ: ۱۶۵۔۱۶۸) وغیرہ شامل ہیں۔ تفصیل ملاحظہ ہو: سنن البیہقي (۱۰/ ۲۸۱۔ ۲۸۳) قارئینِ کرام! ذرا غور فرمائیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ جس زیادت کو صحیح قرار دے رہے ہیں، اسی کو امام حاکم معلول قرار دے رہے ہیں۔ اس کے بعد بھی یہ دعویٰ کرنا کہ وہ زیادۃ الثقہ بدونِ منافات کو مطلق طور پر قبول کرتے ہیں، حقیقت کے برعکس ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ کے موقف کی توضیح میں ملاحظہ ہو: المدخل إلی معرفۃ الإکلیل (ص: ۱۱۶، ۱۱۷) اس لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ کا یہ دعویٰ کہ وہ ہر زیادت کو قبول کرتے ہیں، محلِ نظر ہے۔ 8. امام ذہبی رحمہ اللہ : محترم زبیر صاحب رقمطراز ہیں: ’’ان تمام (۔۔۔ذہبی رحمہ اللہ ) کے نزدیک ثقہ کی زیادت صحیح و معتبر ہوتی ہے۔‘‘ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۸، ص: ۲۵) تلخیص المستدرک امام ذہبی رحمہ اللہ کی معروف تلخیص ہے جس میں وہ امام