کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 448
’’النھار‘‘ کی زیادتی وہم ہے۔‘‘ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص: ۵۸)
محدث گوندلوی رحمہ اللہ امام حاکم رحمہ اللہ کے اسی قول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’معلوم ہوا کہ امام حاکم رحمہ اللہ کے نزدیک بھی ثقہ کی زیادتی ہر جگہ مقبول نہیں ہوتی۔‘‘ (خیر الکلام، ص: ۴۳۔ شذوذ کی بحث)
سوال یہ ہے کہ اگر زیادۃ الثقہ ان کے ہاں ہر جگہ مطلقاً مقبول ہوتی تو انھوں نے ’’صلاۃ اللیل والنھار مثنی مثنی‘‘ میں ’’النھار‘‘ کی زیادت کو وہم قرار کیوں دیا؟ باوجودکہ وہ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ اس کی سند میں صرف ثقہ ثبت ہیں۔
زیادۃ الثقہ کو رد کرنے کی دوسری مثال:
امام حاکم رحمہ اللہ کا موقف ایک اور مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ موصوف رقمطراز ہیں:
’’حدیث العتق ثابت صحیح، وذکر ’’الاستسعاء‘‘ فیہ من قول قتادۃ، وقد وھم من أدرجہ في کلام رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘
’’حدیث العتق صحیح اور ثابت شدہ ہے، مگر اس میں مذکور ’’استسعاء العبد‘‘ قتادۃ کا قول ہے، جس نے اسے فرمانِ نبوی کا حصہ قرار دیا ہے اسے وہم لاحق ہوا ہے۔‘‘ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص: ۴۰)
حالانکہ امام بخاری اور امام مسلم نے امام قتادہ کے اس قول کو صحیح میں بیان کیا ہے، بلکہ اصول میں ذکر کیا ہے، گویا یہ فرمانِ نبوی کا حصہ ہے امام قتادۃ کا قول نہیں۔ صحیح البخاری (حدیث: ۲۴۹۲، ۲۵۰۴، ۲۵۲۶، ۲۵۲۷) و صحیح مسلم (حدیث: ۱۵۰۳، طبع دارالسلام: ۳۷۷۳ ۔ ۳۷۷۵)
متقدمین و متأخرین محدثین کا اس زیادت کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ