کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 447
جاتا ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی صراحت کی ہے۔ ’’النکت علی کتاب ابن الصلاح (۲/ ۶۸۷) جبکہ صحیح یہ ہے کہ وہ بھی اس مسئلہ میں قرائن کا اعتبار کرتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل ہم المستدرک علی الصحیحین کے حوالے سے یہ توضیح ضروری سمجھتے ہیں کہ انھوں نے المستدرک میں احادیث پر جو حکم لگائے ہیں، ان میں ان سے بہت سہو ہوا ہے۔ اس لیے مطلقاً ان احکام پر ان کی تصحیح و تعلیل کی بنیاد رکھنا محلِ نظر ہے۔ اس سہو کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موصوف نے المستدرک کی تالیف کی ابتدا اس وقت فرمائی جب وہ اپنی زندگی کی بہتر بہاریں دیکھ چکے تھے اور وہ اسی کتاب کے ساتھ ساتھ دیگر کتب کی تکمیل میں بھی مشغول تھے۔ ان کی زیادہ تر کوشش یہ تھی کہ وہ احادیث کا ذخیرہ وافر مقدار میں جمع کریں، جیسا کہ انھوں نے مقدمۂ کتاب میں بھی صراحت فرمائی ہے۔ یاد رہے کہ ان کے یہ اوہام المستدرک میں احادیث پر حکم لگا نے میں واقع ہوئے ہیں، حدیث کے ضبط میں نہیں، باقی کتب میں وہ محدثین کے منہج پر رواں دواں ہیں، اس لیے زیادۃ الثقہ وغیرہ کے حوالے سے ان کے کسی مطلق قول یا حکم کو بنیاد بنا کر کُلّی حکم سمجھنا قابلِ توجہ ہے، کیونکہ موصوف نے زیادۃ الثقہ کو وہم کی بنا پر رد بھی کیا ہے۔ امام حاکم کا زیادۃ الثقہ کو رد کرنا: چنانچہ وہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ھذا حدیث لیس في إسنادہ إلا ثقۃ ثبت، وذکر النھار فیہ وھم‘‘ ’’کہ اس حدیث کی سند میں صرف ثقہ ثبت راوی ہیں اور اس میں