کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 446
’’اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ارسال کے ساتھ معلول قرار دیا ہے، مگر ہمارے ہاں یہ علت نہیں۔‘‘ (تحقیق سنن أبي داود: ۱/ ۳۰۷)
عرض ہے کہ اس موصول روایت کو معلول قرار دینے والے تنہا امام ترمذی رحمہ اللہ نہیں، بلکہ دیگر محدثین بھی ان کے ہمنوا ہیں۔ بلاشبہ ایسے مواقع پر ناقدینِ فن کی آرا ہی راجح اور مستحکم ہوتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں متأخرین کے اقوال بے فائدہ ہیں۔
علاوۂ ازیں محدث کبیر علامہ البانی رحمہ اللہ زیادۃ الثقہ بالخصوص اسانید میں بہت تساہل برتتے ہیں، جس بنا پر وہ اکثر موصول روایت کو مرسل اور مرفوع حدیث کو موقوف پر ترجیح دیتے ہیں، حالانکہ درست اس کے برعکس ہوتا ہے۔ جیسا کہ متذکرہ بالا حدیث میں بھی امام ترمذی رحمہ اللہ کی بیان کردہ علت کو علّتِ قادحہ تسلیم نہیں کر رہے۔ دکتور احمد بن محمد الخلیل نے بھی علامہ البانی رحمہ اللہ کی معروف کتاب ارواء الغلیل کے تعاقب میں اس جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔
مستدرک التعلیل علی إرواء الغلیل (ص: ۱۲۰، ۱۳۱، ۱۴۲، ۱۵۸، ۱۷۴، ۲۱۰، ۲۶۲، ۲۷۵، ۳۰۵، ۳۱۹، ۳۳۰، ۳۴۴، ۳۸۱، ۴۱۱، ۴۱۴، ۴۱۷، ۴۱۹، ۴۲۹) وغیرہ۔
7. امام حاکم رحمہ اللہ :
شیخ زبیر صاحب رقمطراز ہیں:
’’ان تمام (۔۔۔ حاکم رحمہ اللہ ۔۔۔) کے نزدیک ثقہ کی زیادت صحیح اور معتبر ہوتی ہے۔‘‘ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۸، ص: ۲۵)
امام حاکم رحمہ اللہ کا زیادۃ الثقہ کے حوالے سے معروف مسلک تو یہی بیان کیا