کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 444
صاحب زیادت کو قرائن کی بنا پر قبول اور ردّ کرتے ہیں۔
چنانچہ اسی بنا پر انھوں نے معتمر اور وکیع بن الجراح کی موصول روایت کو معلول قرار دیا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے: امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے معتمر و وکیع بن الجراح، عن سفیان الثوري، عن محارب بن دثار، عن سلیمان بن بریدۃ، عن أبیہ کی سند سے دو روایتیں مرفوعاً ذکر کی ہیں۔ ازاں بعد یوں تبصرہ فرماتے ہیں:
’’لم یُسند ھذا الخبر عن الثوري أحد نعلمہ غیر المعتمر و وکیع۔ رواہ أصحاب الثوري وغیرھما عن سفیان، عن محارب، عن سلیمان بن بریدۃ، عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم، فإن کان المعتمر و وکیع مع جلالتھما حفظا ھذا الإسناد واتصالہ فھو خبر غریب غریب‘‘(صحیح ابن خزیمۃ: ۱/ ۱۰، حدیث: ۱۳، ۱۴)
’’ہم نہیں جانتے کہ اس حدیث کو سفیان ثوری سے روایت کرتے ہوئے معتمر اور وکیع کے علاوہ کسی اور نے مسند بیان کیا ہو۔ سفیان ثوری کے دیگر شاگرد اسے عن سفیان عن محارب عن سلیمان بن بریدۃ مرسلاً بیان کرتے ہیں۔ معتمر اور وکیع نے اپنی جلالتِ شان کے باوجود اسے متصل بیان کیا ہے!! جو کہ انتہائی غریب حدیث ہے۔‘‘
غور فرمائیں کہ معتمر اور وکیع نے سفیان ثوری سے موصول حدیث بیان کی جبکہ سفیان کے دوسرے شاگرد اسے مرسل بیان کرتے ہیں۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے مرسل روایت کو ترجیح دی اور موصول روایت کو ’’خبر غریب غریب‘‘ کہا ہے۔ اگر ان کے ہاں ہر زیادۃ الثقہ مقبول ہوتی تو وہ اس موصول روایت کو کیوں معلول قرار دیتے؟ پھر امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ سے پہلے متعدد محدثین نے اسے معلول قرار دیا ہے۔