کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 442
(۱۱۷۶، طبع دارالسلام: ۲۷۸۹، ۲۷۹۰) امام ابو عوانۃ رحمہ اللہ نے مسند أبي عوانہ (المستخرج علی صحیح مسلم: ۳/ ۱۹۶۔ ۱۹۷) امام ابو نُعیم رحمہ اللہ نے المسند المستخرج علی صحیح مسلم (۳/ ۲۶۱، ۲۶۲) امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے صحیح ابن خزیمۃ (۳/ ۲۹۳، حدیث: ۲۱۰۳) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے صحیح ابن حبان (۵/ ۲۴۷، ح: ۳۵۹۹۔ الإحسان) وغیرہ نے ’’إبراہیم عن الأسود عن عائشۃ‘‘ مرفوعاً متصلاً بیان کیا ہے۔ اس کا موصول ہونا ہی ہمارے نزدیک راجح ہے۔ دکتور ربیع مدخلی نے بھی اسی موقف کو ترجیح دی ہے۔ (بین الإمامین مسلم والدارقطنی، ص: ۲۱۹۔ ۲۲۰) ابھی آپ ’’امام ترمذی رحمہ اللہ ‘‘ کے عنوان کے تحت پڑھ آئے ہیں کہ امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے محمد بن فُضیل کی موصول روایت کو مرجوح قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر کی صراحت: ان کی تشفی کے لیے استاذ الدنیا في علم الحدیث کا ایک قول پیشِ خدمت ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مصطلح الحدیث کی مختصر ترین کتاب میں فرماتے ہیں: ’’والمنقول عن أئمۃ الحدیث المتقدمین کعبد الرحمٰن بن مہدی۔۔۔ وأبي زرعۃ الرازي وأبي حاتم۔۔۔ وغیرھم اعتبار الترجیح فیما یتعلق بالزیادۃ وغیرھا ولا یعرف عن أحد منھم إطلاق قبول الزیادۃ‘‘ ’’متقدمین ائمۂ حدیث امام عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ ۔۔۔، امام ابو زرعہ الرازی، امام ابو حاتم۔۔۔ وغیرہم سے منقول ہے کہ زیادت وغیرہ میں ترجیح کا اعتبار کیا جائے گا۔ ان میں سے کسی ایک سے زیادۃ الثقہ کو مطلق قبول کرنا معروف نہیں ہے۔‘‘ (نزھۃ النظر، ص: ۴۷)