کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 439
محدثین کا زیادۃ الثقہ کو رد کرنا: اس روایت کے موصول ہونے کو امام بخاری، امام ترمذی رحمہما اللہ کے علاوہ بھی امام ابو حاتم رحمہ اللہ ۔ (علل الحدیث: ۱/ ۱۰۱، دوسرا نسخہ، ۲۷۳) امام ابن معین رحمہ اللہ (التاریخ: ۱/ ۲۲۵، ۲/ ۵۳۴، = ۳/ ۳۹۳، فقرۃ: ۱۹۰۹، ۴/ ۶۶، فقرہ: ۳۱۷۵۔ روایۃ الدوری) امام دارقطنی رحمہ اللہ (السنن: ۱/ ۲۶۲، دوسرا نسخہ: ۱/ ۵۷۶، حدیث: ۱۰۱۷ و علل الأحادیث: ۱۳/ ۲۷۴، رقم: ۳۱۷۰) امام ابن عبدالبر (التمہید: ۸/ ۸۷) وغیرہم نے ابن فُضیل کا وہم اور بے اصل قرار دیا ہے۔ امام عقیلی رحمہ اللہ نے ’’کتاب الضعفاء‘‘ (۴/ ۱۱۹) میں موصوف کے ترجمے میں اس موصول روایت کو ذکر کیا ہے۔ جو ان کی طرف سے جرح کی علامت ہے، کیونکہ انھوں نے مجاہد کی موقوف روایت کو اولیٰ بھی کہا ہے۔ اگر امام ترمذی رحمہ اللہ اور مذکورہ بالا ان چھ محدثین کے ہاں زیادۃ الثقہ مطلقاً قبول ہوتی تو وہ ابن فضیل کی موصول روایت کو کبھی غلط قرار نہ دیتے۔ امام البانی رحمہ اللہ بھی سند میں زیادۃ الثقہ کو عام طور پر ترجیح دیتے ہیں، اس لیے انھوں نے بھی ابن فضیل کی اس موصول روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ السلسلۃ الصحیحۃ (۴/ ۲۷۲، حدیث: ۱۶۹۶) ان سے قبل شیخ احمد شاکر بھی اس موصول روایت کی تصحیح کر چکے ہیں۔ تحقیق الترمذی (۱/ ۲۸۴۔ ۲۸۵) مگر شیخ البانی وغیرہ کا یہ موقف درست نہیں۔ ائمۂ محدثین کے مقابلے میں محض اصولیین کی پیروی میں اس اصول کا جابجا سہارا بہر نوع قابلِ التفات نہیں۔ جس کی مزید