کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 438
ان سبھی اشیاء کا مدار قرائن کی تقویت پر ہوتا ہے۔ جیسے اوثق، احفظ یا جماعت کی روایت کا اعتبار کرنا۔ یہی متقدمین کا منہج ہے۔‘‘
(تحقیق جامع الترمذي: ۶/ ۲۵۳۔ المطبوع باسم: الجامع الکبیر)
امام ترمذی رحمہ اللہ کا زیادۃ الثقہ کو رد کرنا:
دکتور بشار عواد کے قول پر مستزاد یہ ہے کہ امام صاحب نے محمد بن فضیل کی موصول روایت کو غلط قرار دیا ہے اور مرسل روایت کو راجح قرار دیا ہے۔
چنانچہ انھوں نے ’’کتاب مواقیت الصلاۃ‘‘ میں محمد بن فُضیل، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي ھریرۃ مرفوعاً حدیث بیان کی ہے۔
(جامع الترمذي، حدیث: ۱۵۱)
اس کے بعد فرماتے ہیں:
’’سمعت محمداً یقول: حدیث الأعمش عن مجاھد في ’’المواقیت‘‘ أصح حدیث محمد بن فضیل عن الأعمش، وحدیث محمد بن فُضیل خطأ، أخطأ فیہ محمد بن فُضیل‘‘(جامع الترمذي، حدیث: ۱۵۱)
’’میں نے امام بخاری رحمہ اللہ سے سنا کہ ’’المواقیت‘‘ میں الاعمش عن مجاہد کی (مرسل) حدیث، محمد بن فضیل عن الأعمش کی (موصول) روایت سے اصح ہے۔ محمد بن فضیل کی حدیث غلط ہے، جس میں ابن فضیل نے غلطی کی ہے۔‘‘
اگر امام ترمذی رحمہ اللہ اور امام بخاری رحمہ اللہ کے ہاں زیادۃ الثقہ مطلقاً قبول ہوتی تو دونوں (استاذ اور شاگرد) ابن فضیل کی موصول روایت ردّ نہ کرتے۔ گویا زیادۃ الثقہ کے حوالے سے جو موقف امام بخاری رحمہ اللہ کا ہے وہی امام ترمذی رحمہ اللہ بلکہ سبھی متقدمین کا ہے۔