کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 437
مالک جیسے حافظ سے مقید کیا ہے۔‘‘(التقیید والإیضاح شرح مقدمۃ ابن الصلاح للعراقي، ص: ۱۱۲)
ثانیاً: امام ترمذی رحمہ اللہ نے ایسی سند پیش کی ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کے نزدیک أصح الاسانید ہے۔ (سنن البیہقي: ۱۰/ ۲۸۳) بلکہ یہ بھی معروف ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا سارا علم حضرت امام نافع رحمہ اللہ نے محفوظ کیا اور ان کا سارا علم محدث دار الہجرۃ امام مالک رحمہ اللہ نے محفوظ کیا۔
سوال یہ ہے کہ سلیمان تیمی کو ان دونوں نسبتوں میں سے کون سی نسبت ہے؟ کیا وہ ثقاہت میں امام مالک کے درجے کے ہیں؟ کیا ان کی سند اصح الاسانید ہے؟ کیا وہ امام قتادہ بن دعامۃ کے خاص شاگرد ہیں؟
اس لیے ان کا امام ترمذی رحمہ اللہ کے قول سے یہ ثابت کرنا کہ وہ زیادۃ الثقہ کو مطلق طور پر قبول کرتے ہیں، حقائق کے موافق نہیں ہے۔ کیونکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ فرمایا کہ ’’ایسا حافظ جس کے حفظ پر اعتماد کیا جاتا ہے اس کی زیادت مقبول ہوگی۔‘‘ جس کی مثال انھوں نے امام مالک بن انس کی دی کہ انھوں نے نافع سے روایت کرتے ہوئے ’’من المسلمین‘‘ کے الفاظ زائد کیے ہیں جبکہ ایوب سختیانی، عبیداللہ بن عمر اور دیگر راویان نافع سے یہ الفاظ ذکر نہیں کرتے۔
محترم زبیر صاحب نے امام ترمذی رحمہ اللہ کا جو قول ذکر کیا ہے، اس کی توضیح میں دکتور بشار عواد، محقق جامع ترمذی، رقمطراز ہیں:
’’یہاں یہ تنبیہ ضروری ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کا مطلق قول اختیار نہیں کیا جائے گا، کیونکہ متعدد احادیث، جنھیں امام صاحب نے معلول قرار دیا ہے، میں وہ موصول اور مرسل، موقوف اور مرفوع، ذکرِ زیادت اور عدمِ ذکرِ زیادت وغیرہ کا اختلاف ذکر کرنا چاہتے ہیں۔