کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 436
3. امام ترمذی رحمہ اللہ : محترم زبیر صاحب نے امام ترمذی رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ بھی زیادۃ الثقہ کو مطلق طور پر قبول کرتے ہیں، جس کے لیے انھوں نے العلل الصغیر سے نقل کیا کہ امام صاحب فرماتے ہیں: ’’ایسا حافظ جس کے حافظے پر اعتماد کیا جاتا ہے، اگر زیادت بیان کرے تو یہ اس سے مقبول ہوتی ہے۔‘‘ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۷، ص: ۱۱) قارئینِ کرام! اگر وہ تھوڑا سا پیچھے امام ترمذی رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے تو یہ حقیقت پردۂ اخفا میں نہ رہتی کہ وہ بھی دیگر متقدمین کی طرح زیادۃ الثقہ کو قرائن کی بنا پر قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ورب حدیث إنما یستغرب لزیادۃ تکون في الحدیث، وإنما تصحح إذا کانت الزیادۃ ممن یعتمد علی حفظہ مثل ما روی مالک بن أنس عن نافع عن ابن عمر مرفوعاً‘‘(علل الصغیر للترمذي: ۶/ ۲۵۳ المطبوع بآخر الترمذي) ’’بسا اوقات حدیث اپنے اندر موجود زیادت کی وجہ سے غریب قرار پاتی ہے، اگر وہ زیادتی ایسے راوی کی ہو جس کے حفظ پر اعتماد کیا جاتا ہے تو اس کی زیادت صحیح ہے، جیسے مالک بن أنس عن نافع عن ابن عمر مرفوعاً حدیث ہے۔‘‘ امام ترمذی رحمہ اللہ کے اس قول سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں: اولاً: زیادت کا راوی اتقان و ضبط میں محدثِ مدینہ امام مالک بن انس رحمہ اللہ کی طرح ہو، جیسا کہ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام ترمذی رحمہ اللہ نے مطلق تفرد کا ذکر نہیں کیا، بلکہ اس تفرد کو امام