کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 433
قبول کرنا چاہیے تھا۔ یہ زیادت دوسرے راویوں کی روایت کے بظاہر منافی بھی نہیں! البتہ مخالف ضرور ہے۔ 2. سعید بن عبید کی زیادت کو بھی وہم کی بنا پر امام مسلم رحمہ اللہ نے غلط قرار دیا ہے۔(کتاب التمییز، ص: ۱۴۶، دوسرا نسخہ، ص: ۱۹۲) یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ انھوں نے سعید بن عبید کی سند کو صحیح مسلم میں ذکر کیا ہے، مگر ان کی زیادت کو حذف کر دیا ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۱۶۶۹/۵، طبع دار السلام، حدیث: ۴۳۴۸) اگر ان کے ہاں ہر زیادۃ الثقہ مقبول ہے تو انھوں نے سعید بن عبید کی زیادت کو صحیح مسلم میں کیوں بیان نہیں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ابن عُبید یہ اضافہ نسیان کی بنا پر بیان کرتے ہیں۔ یہ دونوں مثالیں ہم الاعتصام (ج: ۶۰، ش: ۳۵، ص: ۱۹، ۲۰) میں بیان کر چکے ہیں، مگر جس طرح محترم زبیر صاحب زہری کے حوالے سے امام مسلم رحمہ اللہ کے قول کا جواب نہ دے سکے، اسی طرح ان دونوں مثالوں کا بھی کوئی جواب ان سے بن نہ آیا، جس سے آپ معلوم کر سکتے ہیں کہ انھوں نے امام مسلم رحمہ اللہ کا جو قول ذکر کیا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے؟ ان کی تشفی کے لیے مزید عرض ہے کہ 3. عبداللہ بن مسلمۃ القعنبی (ثقۃ عابد۔ التقریب: ۴۰۰۹) نے سند میں عن أبیہ کا واسطہ ذکر کیا تو امام مسلم رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’وقولہ: عن أبیہ، في ھذا الحدیث، خطأ‘‘ ’’کہ القعنبی کا اس سند میں ’’عن أبیہ‘‘ کا واسطہ ذکر کرنا غلط ہے۔‘‘‘(صحیح مسلم، حدیث: ۷۱۱، دارالسلام، حدیث: ۱۶۴۹) سوال یہ ہے کہ وہ اس زیادۃ الثقہ بدونِ منافات کو کیوں رد کر رہے ہیں؟ کیا