کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 432
سے امام مسلم رحمہ اللہ کا تفصیلی کلام نقل کر چکے ہیں کہ انھوں نے امام زہری کی مثال دے کر زیادۃ الثقہ کے مسئلے کی وضاحت کی ہے۔
(کتاب التمییز، ص: ۱۲۶، الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۳۵، ص: ۱۹)
امام مسلم رحمہ اللہ کے اس تفصیلی قول کا کوئی جواب محترم زبیر صاحب نے نہ دیا، بلکہ الٹا ایک غیر واضح قول پیش کر دیا۔ حالانکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی بحث کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اس کے متعلقہ اقوال کا تتبع کیا جائے، نہ کہ کسی ایک مبہم قول پر بنیاد رکھی جائے۔
ثالثاً: ابھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی صراحت گزر چکی ہے ’’کہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ کا موصول کو مرسل پر مقدم کرنا عمومی قاعدہ نہیں ہے، بلکہ اس کا انحصار قرائن پر ہے۔‘‘ (فتح الباری: ۱۰/ ۲۰۳)
امام مسلم رحمہ اللہ کا زیادۃ الثقہ کو رد کرنا:
رابعاً: ہم نے اپنے سابقہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے زیادۃ الثقہ کو وہم کی بنا پر رد بھی کیا ہے۔ جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔
1. امام مالک بن انس محدثِ مدینہ نے سند میں ’’عن أبیہ‘‘ کا واسطہ ذکر کیا، جو باقی راوی بیان نہیں کرتے تو امام مسلم نے اس زیادۃ الثقہ بلکہ زیادۃ الحافظ الجلیل الامام کو خطا کی بنا پر رد کر دیا اور فرمایا:
’’والصواب ما قالوا، دون ما قال مالک‘‘
’’درست قول ان کا ہے جنھوں نے عن أبیہ کا واسطہ ذکر نہیں کیا۔ مالک کا قول صحیح نہیں۔‘‘
(کتاب التمییز لمسلم، ص: ۱۷۲، ۱۷۳، دوسرا نسخہ، ص: ۲۲۰، رقم ۱۰۶)
اگر وہ ہر زیادۃ الثقہ کو قبول کرتے ہوتے تو یہاں بھی امام مالک کی زیادت کو