کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 424
ائمۂ کرام سے ثابت نہیں، بلکہ وہ تو متکلمین کی کتب سے مأخوذ ہیں۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے زیادۃ الثقہ کو اس لیے قبول کیا ہے کہ متکلمین اور اکثر فقہاء اسے اسی طرح قبول کرتے ہیں۔ (شرح علل الترمذي: ۲/ ۶۳۸)
خطیب بغدادی اور ان پر تنقید کرنے والے محدثین کے حوالے سے مزید تفصیلات ’’حافظ خطیب بغدادی‘‘ کے عنوان کے تحت آرہی ہیں۔
درست بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ زیادۃ الثقہ کو قرائن کے تناظر میں دیکھتے ہیں، اگر قرائن زیادت کی صحت کے متقاضی ہوں تو اسے قبول کرتے ہیں، بصورتِ دیگر رد کر دیتے ہیں۔
چنانچہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فمن تأمل کتاب تاریخ البخاري تبین لہ قطعاً أنہ لم یکن یری أن زیادۃ کل ثقۃ في الإسناد مقبولۃ‘‘
’’جو شخص (امام بخاری رحمہ اللہ کی) کتاب التاریخ الکبیر میں غور و فکر کرے گا تو اس پر واضح ہوجائے گا کہ ان کے ہاں زیادۃ الثقہ ہر سند میں مقبول نہیں ہے۔‘‘ (شرح علل الترمذي لابن رجب: ۲/ ۶۳۸)
امام بخاری کا زیادۃ الثقہ کو رد کرنا:
اب ذرا ’’التاریخ الکبیر للإمام البخاري (۱/ ۴۷ ترجمہ ۹۳ ترجمہ: محمد بن أبي بکر الأنصاري) ‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی معروف حدیث ’’إن شئت سبعت لک۔۔۔‘‘ کو امام، حافظ، ناقد سفیان ثوری نے موصول بیان کیا ہے، جبکہ امام مالک بن انس نے مرسل بیان کیا ہے۔ اگر امام بخاری رحمہ اللہ ہر زیادۃ الثقہ کو قبول کرتے تو چاہیے یہ تھا کہ وہ سفیان ثوری کی موصول روایت کو