کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 411
ترکش کا آخری تیر:
شیخ زبیر صاحب فرماتے ہیں:
’’کیا خیال ہے صحیح مسلم کی حدیث ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ حسن لغیرہ کے درجے تک بھی نہیں پہنچتی؟ اور اگر پہنچتی ہے تو پھر صحیح مسلم کی حدیث کے خلاف اتنا لمبا مضمون لکھنے کا کیا فائدہ تھا؟ فیا للعجب! ‘‘
(الاعتصام: ج۶۰، ش: ۴۸، ص: ۲۹)
عرض ہے کہ یہ زیادت حسن لغیرہ کے درجے تک بھی نہیں پہنچتی، کیونکہ ایسی حدیث حسن لغیرہ قرار پاتی ہے، جس میں ضعف شدید نہ ہو اور قرائن بھی اس کی صحت پر دلالت کریں۔
حسن لغیرہ کی سب سے عمدہ اور جامع تعریف دکتور خالد بن منصور الدریس حفظہ اللہ نے بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’اعتضاد روایۃ ضعیفۃ قابلۃ للإنجبار بروایۃ ضعیفۃ أخری فأکثرھا قابلۃ للإنجبار أیضاً‘‘(الحدیث الحسن لذاتہ ولغیرہ للدکتور خالد: ۵/۲۰۸۸)
’’ایسی ضعیف حدیث جو تقویت حاصل کرنے کے قابل ہو وہ ایسی ضعیف حدیث یا احادیث سے تقویت حاصل کرے جو تقویت دینے کے لائق ہو۔‘‘
سوال یہ ہے کہ سلیمان تیمی کی زیادت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ تقویت حاصل کرے؟ جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ پھر اس کے دو متابع اور ایک شاہد اس حیثیت کے حامل ہیں کہ وہ سلیمان تیمی کی تائید کریں، قطعاً نہیں۔ کیونکہ ناقدین نے جہاں سلیمان تیمی کو شاذ قرار دیا، وہاں اس کے متابع اور شاہد کو بھی کسی قطار و