کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 410
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث) میں اس لفظ ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کے غلط ہونے پراجماع کیا ہے۔ یہ زیادت غیر محفوظ (شاذ) ہے۔‘‘
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ اس زیادت کے شاذ ہونے پر حفاظ متقدمین کا اجماع نقل کر رہے ہیں۔ چلیے جناب! ان کا ذکرِ اجماع ناگوار گزرتا ہے تو کم از کم یہ تو تسلیم کیجیے کہ اہلِ فن میں سے جمہور محدثین اس زیادت کے بے اصل ہونے کے قائل ہیں، کیونکہ بسا اوقات اکثری حکم پر بھی اجماع کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے اس فیصلے کو بایں الفاظ ذکر کیا ہے۔
’’اجتماع ھؤلاء الحفاظ علی تضعیفھا مقدم علی تصحیح مسلم لھا‘‘ (شرح صحیح مسلم للنووی: ۱/ ۱۷۵ ۔درسی نسخہ)
’’اس زیادت کی تضعیف پر ان حفاظ کا اجتماع امام مسلم رحمہ اللہ کی اس تصحیح پر مقدم ہے۔‘‘
علامہ ابن الملقن فرماتے ہیں:
’’قال جمھور الحفاظ: قولہ: ((وإذا قرأ فأنصتوا)) لیست صحیحۃ عن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم‘‘
’’جمہور محدثین نے کہا کہ ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کی زیادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔‘‘ (البدر المنیر لابن الملقن: ۴/ ۴۸۲)
قارئینِ کرام! خلاصۂ تحقیق یہ ہے کہ سلیمان تیمی کے شاذ ہونے میں کسی قسم کا شائبہ نہیں ہے۔ اس کا ایک متابع شاذ جبکہ دوسرا منکر ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور زیادت بھی بے اصل ہے۔
یہاں تک محترم زبیر صاحب کے چھ دلائل کے جوابات مکمل ہوچکے ہیں، اب ان کی ساتویں دلیل کی طرف آتے ہیں۔