کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 409
الزخار کے نام سے مطبوع ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ بھی اپنی کتب میں علل الاحادیث کی نشاندہی فرماتے رہتے ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے موصوف سے علل الاحادیث کے بارے میں جو سوالات کیے وہ بھی معروف ہیں۔ بلکہ علامہ محمد بن سلیمان رودانی نے صلۃ الخلف بموصول السلف (ص: ۳۰۳) میں امام ترمذی کی کتاب العلل کی نشاندہی فرمائی ہے۔ سنن ترمذی کے آخر میں مطبوع علل الترمذی الصغیر بھی معروف ہے۔ امام اثرم، امام محمد بن یحییٰ الذہلی اور امام ابو علی الحسین بن علی نیشاپوری کی کتب العلل کی معرفت کے لیے بالترتیب دیکھیے: تاریخ بغداد (۵/ ۱۱۰)۔ الفھرسۃ لابن خیر الإشبیلی (ص: ۱۷۲، رقم: ۳۲۴) و الإمام محمد بن یحییٰ الذہلی محدثاً مع تحقیق المنتقی من زھریاتہ: إعداد: سلیمان بن سعید العسیری۔ امام ابو علی رحمہ اللہ کی کتاب العلل کے لیے ملاحظہ ہو: فتح المغیث للسخاوی (۳/۳۱۱) سوال یہ ہے کہ کیا یہ نسبت اس حدیث کے مصححین کو بھی ہے؟ اس لیے ان مضعفین کی تضعیف ہی راجح ہوگی، کیونکہ وہ ضعف کے اس نکتہ پر پہنچ گئے، جہاں تک دوسروں کی رسائی نہ ہوسکی۔ چوتھا قرینہ: تضعیف پر اتفاق: امام بیہقی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’وقد أجمع الحفاظ علی خطأ ھذہ اللفظۃ في الحدیث وأنھا لیست بمحفوظۃ‘‘ (معرفۃ السنن والآثار للبیھقي: ۲/ ۴۶۔۴۷) ’’حفاظ محدثین نے اس حدیث (حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اور