کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 408
ص: ۶۶۳۔۷۲۲، حدیثِ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ، و ص: ۷۲۳۔۷۴۳، حدیثِ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ) نے شاذ قرار دیا ہے۔
یہ ایسی کتب ہیں، جو بحمداللہ ہمارے مکتبہ میں موجود ہیں، ورنہ مزید دسیوں کتب اس موقع پر پیش کی جا سکتی ہیں۔
محترم زبیر صاحب! یہ مناسبت کیا اس حدیث کے مصححین میں دکھلا سکتے ہیں؟ دیدہ باید!
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب الإلمام بحکم القراء ۃ خلف الإمام ہے۔ جس میں انھوں نے اس زیادت کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ وہ رسالہ موصوف سے کیے گئے ایک سوال کا جواب ہے، مستقل تصنیف نہیں کہ جس میں اس مسئلہ میں مذکور احادیث پر نقد و تبصرہ کیا جائے۔ لہٰذا ان کی تصحیح بھی قابلِ غور ہے۔
تیسرا قرینہ: جمہور ماہرین علل کے ہاں اس کا شذوذ:
جن محدثین نے اس زیادت کو شاذ قرار دیا ہے، وہ علل الحدیث کے میدان کے عظیم شہسوار ہیں۔ حتی کہ انھوں نے اس انتہائی اہم اور پیچیدہ فن میں کتب بھی تصنیف فرمائیں۔ جن میں امام ابن معین، امام احمد، امام بخاری، امام ذہلی، امام ابو حاتم الرازی اور امام ابو علی نیشاپوری رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔
امام ابن معین، امام احمد اور امام ابو حاتم الرازی کی علل الاحادیث پر مشتمل کتب معروف اور متداول ہیں۔ حافظ الدنیا امام دارقطنی رحمہ اللہ کی علل الحدیث پر مشتمل مفصل کتاب مطبوع ہے۔ جس کتاب کا اب تک وجود اس بات کی نشانی ہے کہ فرامینِ نبویہ بھی معجزہ ہیں۔ امام بزار کی المسند المعلل بھی البحر