کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 406
ابوالدمشقی رحمہ اللہ ۴۰۱ھ نے دیے۔ موصوف امام دارقطنی رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں۔ انھوں نے بھی حدیث: (۲) میں ’’فأنصتوا‘‘ کی زیادت کو ذکر کیا اور فرمایا: امام مسلم رحمہ اللہ تیمی کی حدیث کا اثبات نہیں کر رہے بلکہ قتادہ پر اختلاف ذکر کر رہے ہیں۔(کتاب الأجوبۃ، ص: ۱۵۷۔۱۶۴) حافظ ابو مسعود دمشقی رحمہ اللہ کی طرح امام دارقطنی رحمہ اللہ کے اعتراضات کے جوابات مشہور علامہ شیخ ربیع بن ہادی عمیر المدخلی نے بھی دیے ہیں۔ موصوف نے بھی تسلیم کیا کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کی تنقید درست ہے اور یہ زیادت شاذ ہے۔(بین الإمامین: مسلم والدارقطني، ص: ۱۱۷) صحیح مسلم کے مشہور شارح امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ صحیح مسلم کی احادیث و اسانید پر دکتور حمزہ عبداللہ ملیباری کا دراستہ معروف ہے، انھوں نے صحیح مسلم سے متعلقہ دو کتب (عبقریۃ الإمام مسلم في ترتیب أحادیث مسندہ الصحیح اور ما ھکذا تور دیا سعد الإبل) تصنیف کیں، پہلی کتاب (ص: ۶۸) میں ثابت کیا کہ یہ زیادت شاذ ہے۔ علامۃ الیمن شیخ مقبل بن ہادی نے ’’الإلزامات والتتبع للدارقطني‘‘ اور شیخ ابراہیم نے ’’کتاب الأجوبۃ لأبي مسعود الدمشقي‘‘ کی تحقیق و تعلیق میں اسے معلول قرار دیا ہے۔ بلکہ شیخ ابو سفیان مصطفی باحو نے صحیحین کی قابلِ اعتراض روایات کو جمع کیا ہے بعد ازاں ان کے جوابات دیے ہیں، مگر انھوں نے اس زیادت کو منکر قرار دیا ہے۔ (الأحادیث المنتقدۃ في الصحیحین: ۱/ ۱۳۴) گویا ان سبھی متکلمین کا صحیح مسلم پر دراستہ قابلِ استناد حیثیت کا حامل ہے، محترم زبیر صاحب! یہ امتیازی خصوصیت اس زیادت کے مصححین میں دکھلا سکتے ہیں؟ یہ اس کی تضعیف کے راجح ہونے کا پہلا قرینہ ہے۔ اب دوسرا قرینہ ملاحظہ فرمائیں۔