کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 405
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے اور حافظ بغوی رحمہ اللہ نے احادیثِ حسان میں ذکر کیا ہے۔ ان کی رائے امام ابن معین، بخاری، ابو حاتم، ذہلی، ابو داود، دارقطنی، ابن خزیمہ، نسائی وغیرہ کے مقابلے میں مرجوح ہے۔
حافظ بغدادی، خلیلی، ابن عدی، ابن مندہ وغیرہ کا نام اس زیادت کی تصحیح کے لیے پیش کرنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
تضعیف کے قرائن: صحیح مسلم کے متعلقین کے ہاں اس کا شذوذ:
جن ائمہ نے اس زیادت کو ضعیف قرار دیا ہے، ان کی صحیح مسلم کی اسانید اور متون پر بالخصوص اور عام احادیث پر بالعموم انتہائی گہری نظر ہے، بلکہ انھوں نے صحیح مسلم کی معلول روایات کو چھانٹ کر علیحدہ بھی ذکر کیا ہے۔
جن میں امام ابو الفضل ابن عمار الشہید رحمہ اللہ ۳۱۷ھ کی کتاب علل الأحادیث فی کتاب الصحیح لمسلم بن الحجاج قابلِ ذکر ہے۔ موصوف نے حدیث: (۱۰) میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور زیادت کو تیمی کا وہم اور زیادت کو غیر محفوظ کہا ہے۔
امام ابن عمار رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کے انداز پر ایک صحیح احادیث پر مشتمل کتاب بھی مرتب فرمائی۔ جیسا کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کے تذکرہ میں ذکر کیا ہے۔ (سیر أعلام النبلاء: ۱۴/۵۴۰)
امام ابن عمار رحمہ اللہ کے بعد حافظ دارقطنی ۳۸۵ھ نے صحیحین میں معلول روایات کی نشان دہی کے لیے الإلزامات والتتبع لکھی۔ اور ’’فأنصتوا‘‘ کو التتبع (ص: ۱۷۱) میں ذکر کرکے معلول قرار دیا۔ موصوف کے تعارف کے لیے علل الدارقطنی ہی کافی ہے۔
حافظ دارقطنی رحمہ اللہ کے صحیح مسلم پر وارد کردہ اعتراضات کے جوابات حافظ