کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 398
چونکہ ابن عجلان نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ’’المؤمن القوي خیر وأحب إلی اللّٰه۔۔۔‘‘ میں تدلیس کی ہے۔ جیسا کہ حافظ علائی رحمہ اللہ نے بھی اشارہ کیا ہے۔ (جامع التحصیل للعلائی، ص: ۱۲۵) ثانیاً: ابن عجلان سيء الحفظ ہے۔ (میزان الاعتدال: ۳/ ۶۴۴) وغیرہ۔ ثالثاً: ابن عجلان پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی احادیث خلط ملط ہوگئی تھیں۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی التقریب (۶۹۰۸) میں صراحت کی ہے۔ اور محترم زبیر صاحب نے بھی طبقات المدلسین کی تحقیق میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے قول کو قبول کیا ہے۔ الفتح المبین (ص: ۶۰) ابن عجلان اسی اختلاط کی بنا پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کو بھی مختلف واسطوں سے بیان کرتے ہیں۔ جس کی تفصیل علل الدارقطنی (۸/ ۱۸۶ تا ۱۸۸) میں دیکھی جا سکتی ہے۔ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ اور امام نسائی رحمہ اللہ کے ہاں اس زیادت ’’فأنصتوا‘‘ کی علت بھی ابن عجلان ہیں۔ رابعاً: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی سند میں ابو خالد سلیمان بن حیان ہیں۔ جن کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’صدوق یخطیٔ‘‘ (التقریب: ۲۸۰۷) امام بخاری، امام ابو داود، امام ذہلی رحمہم اللہ وغیرہ کے ہاں اس زیادت کی علت ابو خالد موصوف ہیں۔ جن کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أراہ کان یدلس‘‘ ’’میرا خیال ہے کہ وہ تدلیس کرتا تھا۔‘‘ (کتاب القراء ۃ، ص: ۱۳۲) مزید تفصیل (توضیح الکلام، ص: ۷۲۴ ۔ ۷۳۲) میں دیکھی جا سکتی ہے۔