کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 397
اس زیادت کی تصحیح میں ان کی پانچویں دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث کی شاہد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔
(الاعتصام، ج:۶۰، ش: ۴۵، ص: ۲۱)
شاہد بھی ضعیف ہے
حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور زیادت کی طرح حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی یہ زیادت شاذ اور بے اصل ہے۔ جس کی وجوہ درج ذیل ہیں:
أولاً: محمد بن عجلان مدلس راوی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے مدلسین کے تیسرے طبقے میں ذکر کیا ہے۔ طبقات المدلسین (۶۰، رقم: ۹۸) اور فرمایا کہ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے مدلس قرار دیا ہے!
تیسرے طبقے کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے خود صراحت فرمائی ہے کہ اس میں ان مدلسین کا ذکر ہے، جن کی تصریحِ سماع والی روایت محدثین قبول کرتے ہیں۔ (مقدمۃ طبقات المدلسین: ص: ۱۲)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے علاوہ حافظ حلبی، حافظ علائی، حافظ ابو محمود المقدسی، امام ذہبی اور حافظ سیوطی رحمہم اللہ نے بھی ابن عجلان کو مدلس قرار دیا ہے۔
(توضیح الکلام، ص: ۷۲۵)
یعنی ان کا مدلس ہونا ثابت ہے اور محترم زبیر صاحب کے ہاں جو راوی ایک ہی بار تدلیس کرے، اس کی معنعن روایت ناقابلِ قبول ہے۔
(مقدمۃ الفتح المبین في تحقیق طبقات المدلسین للشیخ زبیر حفظہ اللّٰه، ص: ۸)
مگر یہ اصول امام یحییٰ بن معین، امام علی بن مدینی، امام بخاری، امام مسلم، امام احمد رحمہم اللہ کے اصول سے متصادم ہے۔ جس کی تفصیل ہمارے مضمون ’’التحقیق والتنقیح في مسئلۃ التدلیس‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔