کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 396
پہنچ جاتا تو اس صورت میں سلیمان تیمی کے تفرد اٹھانے میں کارگر ہوتا۔ جیسے سالم بن نوح نے سعید بن ابی عروبۃ سے نقل کرنے میں غلطی ہے، عمر بن عامر سے نقل کرنے میں بھی غلطی کی ہے۔ پس شاذ سے شاذ کو تقویت نہیں پہنچتی۔ باقی رہا ابو عبیدہ اس کی متابعت کالعدم ہے۔‘‘ (خیر الکلام از محدث گوندلوی، ص: ۴۱۷۔۴۱۸)
لیجئے! محترم زبیر صاحب کے استاذِ گرامی کے ہاں سلیمان تیمی کی زیادت شاذ ہے، عمر بن عامر اور سالم بن نوح کی متابعت بھی شاذ ہے اور مجاعۃ کی متابعت کالعدم ہے، یہی ہماری سابقہ بحث کا خلاصہ ہے۔
ایک مزید علّت: انقطاع در انقطاع:
سلیمان بن طرخان نے امام قتادۃ سے ’’فأنصتوا‘‘ کی زیادت سنی، اور نہ قتادۃ بن دعامۃ نے اپنے شیخ یونس بن جبیر سے یہ زیادت سنی ہے۔
چنانچہ امام العلل بخاری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’لم یذکر سلیمان في ھذہ الزیادۃ سماعاً من قتادۃ ولا قتادۃ من یونس بن جبیر‘‘ (جزء القراء ۃ للإمام البخاري، ص: ۲۸۳ ۔نصر الباري از شیخ زبیر صاحب)
’’سلیمان نے اس زیادت میں قتادۃ سے سماع ذکر نہیں کیا اور نہ قتادۃ نے یونس بن جبیر سے سماع ذکر کیا ہے۔‘‘
گویا امام بخاری رحمہ اللہ اس زیادت کے بے اصل اور غیر مسموع ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ مگر اتنی تصریحات کے باوجود محترم اسے محفوظ قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔