کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 393
امام صاحب نے مجاعۃ پر صراحتاً تنقید نہ کرنے سے اس کے ضعف کی طرف اشارہ کر دیا۔ یہ اشارہ اور اس کے معنی محدثین کے ہاں معروف تھے، جسے بھانپ کر امام ابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے فرمایا کہ امام شعبہ کا کنارہ کشی کرنا مجاعۃ کی تضعیف پر دلالت کرتا ہے۔ اور یہ فہم دوسروں کے مقابلے میں راجح ہے۔ گویا امام شعبہ کو مجاعۃ کے معدلین میں شمار کرنا درست نہیں ہے۔ محترم زبیر صاحب نے تیسرے معدل امام ابو عوانہ رحمہ اللہ ذکر کیے ہیں کہ انھوں نے مجاعۃ کی حدیث کو اپنی مسند میں ذکر کیا ہے۔ یہ بھی انتہائی کمزور آسرا ہے، کیونکہ امام ابو عوانہ رحمہ اللہ نے تو متروک بلکہ کذاب راویوں سے بھی روایت لی ہے۔ جیسے حسن بن زیاد لؤلؤی، عبداللہ بن محمد البلوی اور عبداللہ بن عمرو الواقفی وغیرہ ہیں۔توضیح الکلام (ص: ۶۷۶، طبع جدید) ان کے علاوہ اور متروک راوی بھی ہماری نظر میں ہیں۔ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ان کی نشان دہی بھی کر دی جائے گی۔ رہا امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام سمعانی رحمہ اللہ کا اسے مستقیم الحدیث عن الثقات قرار دینا تو اس حوالے سے عرض ہے کہ بلاشبہ امام ابن حبان نے انھیں مستقیم الحدیث عن الثقات قرار دیا ہے۔ (الثقات لابن حبان: ۷/ ۵۱۷) اور ان کی متابعت میں امام سمعانی نے انھیں مستقیم الحدیث عن الثقات قرار دیا ہے۔ (الأنساب للسمعاني: ۲/ ۹۵) اہلِ علم بخوبی جانتے ہیں کہ امام سمعانی الانساب میں حافظ ابن حبان کی کتاب الثقات سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں اور حافظ ابن حبان کی عبارتوں کو مِنْ و عَنْ نقل کرتے ہیں، جیسا کہ انھوں نے مجاعۃ کے ترجمے میں کیا ہے۔ مگر فرق