کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 388
’’أحد العلماء العاملین‘‘ قرار دینا، متکلم فیہ راوی کے درجے سے خارج نہیں کر سکتا! جیسا کہ محترم زبیر صاحب، امام ذہبی رحمہ اللہ سے ان کی تعریف و توثیق نقل کر رہے ہیں! 7. حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی رحمہ اللہ کی متابعت میں اسے لسان المیزان میں ذکر کیا ہے۔ اور امام ابن خراش کی جرح ’’لیس مما یعتبر بہ‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔ (لسان المیزان: ۵/ ۱۶، طبع جدید، رقم: ۶۳۰۸) 8. امیر المؤمنین فی الحدیث امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ سے جب مجاعۃ کی بابت سوال کیا گیا تو انھوں نے اسے لائقِ التفات ہی نہ سمجھا۔ ان کے اس طرزِ عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے امام ابو محمد ابن ابی حاتم نے فرمایا: امام شعبہ کا یہ اسلوب اس کی توہین (تضعیف) پر دلالت کرتا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’کان یحید عن الجواب فیہ، ودلّ حیدانہ عن الجواب علی توھینہ‘‘ (تقدمۃ الجرح و التعدیل، ص: ۱۵۴) 9. امام الجوزجانی رحمہ اللہ نے اسے احوال الرجال میں ذکر کیا ہے۔(ص: ۱۱۹، ترجمہ: ۱۹۵) 10 امام بخاری رحمہ اللہ نے حسبِ عادت[1] اس کے متکلم فیہ ہونے کی طرف ایک لطیف اشارہ فرمایا ہے۔ (التاریخ الکبیر للبخاري: ۸/ ۴۴، رقم: ۲۰۹۲)
[1] علامہ معلمی فرماتے ہیں: ’’وإخراج البخاري في التاریخ لا یفید الخبر شیئاً، بل یضرہ، فإن من شأن البخاري أن لا یخرج الخبر في التاریخ إلا لیدل علی وھن راویہ‘‘ ’’امام بخاری کا التاریخ الکبیر میں کسی حدیث کا بیان کرنا اسے کچھ فائدہ نہیں دیتا، بلکہ اسے نقصان پہنچاتا ہے، کیونکہ امام صاحب التاریخ میں حدیث اس لیے ذکر کرتے ہیں کہ وہ اس کے راوی (صاحب الترجمہ) کی کمزوری پر دلالت کرے۔‘‘ (تعلیق الفوائد المجموعۃ للمعلمي، ص: ۱۸۰، تحت حدیث: ۶۱)۔