کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 387
کرتے، جو سلیمان تیمی بیان کرتے ہیں۔ پھر یہ راویان بھی سلیمان تیمی کے مقابلے میں زیادہ ثقہ ہیں۔ اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ محدثین قتادۃ سے روایت کرتے ہوئے ابو عبیدہ مجاعۃ بن الزبیر کی اس زیادت کو قبول کر لیں۔ اگر مجاعۃ کو ضعیف نہ بھی تسلیم کیا جائے تب بھی وہ متکلم فیہ کے دائرے سے نہیں نکل سکتے۔ مجاعۃ بن الزبیر پر جرح: مجاعۃ بن الزبیر پر جرح ملاحظہ ہو۔ 1. امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ سنن الدارقطني (۱/ ۷۶) حافظ ابن زریق الحنبلی ۸۰۳ھ نے بھی امام دارقطنی کی اس تضعیف کو نقل کیا ہے۔ (من تکلم فیہ الدارقطنی في کتاب السنن من الضعفاء والمتروکین والمجہولین لابن زریق، ص: ۲۳۸، رقم: ۳۶۰) 2. حافظ ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ھو ممن یحتمل ویکتب حدیثہ‘‘۔ (الکامل: ۶/ ۲۴۲۰) 3. امام عقیلی رحمہ اللہ نے الضعفاء (۴/ ۲۵۵) 4. اور امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے الضعفاء (۳/ ۳۵) میں ذکر کیا ہے۔ 5. حافظ ابن خراش فرماتے ہیں: ’’لیس مما یعتبر بہ‘‘ اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ (لسان المیزان: ۵/ ۱۶) حافظ ابن حجر اور دیگر علماء نے تو ان کے قول کا اعتبار کر کے اسے ذکر کیا ہے۔ مگر محترم زبیر صاحب کے ہاں اس قول کا اعتبار نہیں ہے!!! بلاشبہ حافظ ابن حجر کا ذکر کردہ قول ہی معتبر ہے۔ 6. امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسے دیوان الضعفاء (ص: ۲۶۲) اور المغني في الضعفاء (۲/ ۵۴۲) میں ذکر کیا ہے۔ اور امام دارقطنی رحمہ اللہ کی مذکورہ بالا تضعیف کو بھی ذکر کیا ہے۔ اس لیے امام ذہبی رحمہ اللہ کا اسے سیر أعلام النبلاء (۷/ ۱۹۶) میں