کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 386
قارئینِ کرام! ذرا انصاف فرمائیں کہ ائمۂ سالم بن نوح کی متابعت کو صراحتاً شاذ قرار دے رہے ہیں، مگر محترم زبیر صاحب ان کی مخالفت میں اس سند کو ’’حسن لذاتہ‘‘ قرار دے رہے ہیں! بتلایے محدثین کی ہمنوائی کس کے حصے میں آئی؟ کیا وہ اپنی تایید میں ان محدثین کے مقابلے میں کوئی معتبر حوالہ پیش کر سکتے ہیں؟! دوسری متابعت منکر ہے: انھوں نے ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کی زیادت کو بیان کرنے میں سلیمان تیمی کا دوسرا متابع مجاعۃ بن الزبیر ابو عبیدہ کو پیش کیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: امام ابو عوانۃ نے فرمایا: ’’حدثنا سھل بن بحر الجندیسابوري قال: ثنا عبد اللّٰه بن رشید قال أبو عبیدۃ عن قتادۃ۔۔۔ الخ‘‘ پھر فرماتے ہیں، یہ روایت قتادہ تک حسن لذاتہ ہے۔ (الاعتصام: ج: ۶۰، ش: ۴۶، ص: ۲۰۔ ۲۱) انتہائی ادب سے عرض ہے کہ اگر اس کی سند ’’حسن لذاتہ‘‘ بھی ہو، تب بھی یہ متابع سلیمان تیمی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ کیونکہ روایت کی صحت کا مدار محض راویان پر نہیں ہوتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ عام راویوں کا تفرد بھی قابلِ اعتنا نہیں ہوتا، بالخصوص جب وہ ثقات، اثبات اور اخص ترین تلامذہ کے مقابل ہو۔ آپ گزشتہ مضمون ’’زیادۃ الثقۃ اور وإذا قرأ فأنصتوا کا حکم‘‘ میں پڑھ آئے ہیں کہ محدثین نے سلیمان تیمی کی زیادت کو اس لیے قبول نہیں کیا کہ قتادۃ بن دعامۃ سے روایت کرنے میں سعید بن ابی عروبۃ، شعبہ بن الحجاج، معمر بن راشد، ہشام دستوائی، وغیرہ أثبت الناس اور أروی الناس ہیں، اور وہ یہ اضافہ بیان نہیں