کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 385
8۔ عبد الاعلیٰ السامی۔ (سنن ابن ماجہ: ۹۰۱)
9۔ محمد بن عبداللہ الانصاری۔ (مسند الرویانی: ۱/ ۳۷۳، حدیث: ۵۷۰)
10۔ مکی بن ابراہیم۔ (کتاب القراء ۃ، ص: ۱۲۹، حدیث: ۳۰۷ ۔م)
11۔ روح بن عبادۃ القیسی۔ ۱۲۔ مروان بن معاویۃ الفزاری۔ ۱۳۔ عباد بن العوام بن عمر۔ ۱۴۔ شعیب بن اسحاق البصری۔ ۱۵۔ عبداللہ بن شوذب۔ ۱۶۔ عثمان بن مطر وغیرہ۔ کتاب القراء ۃ (ص: ۱۳۰)
12۔ ابو اسامۃ حماد بن اسامۃ۔ صحیح مسلم (۹۰۵)، مصنف ابن أبي شیبۃ: (۱/ ۲۲۷، حدیث: ۲۵۹۵)، المسند المستخرج لأبي نعیم (۲/ ۲۸، رقم ۸۹۸)، کتاب الصلاۃ لابن حبان (بحوالہ إتحاف المھرۃ لابن حجر: ۱۰/ ۱۹)، کتاب القراء ۃ للبیھقي (ص: ۱۳۰)
یہ سترہ راویان کی جماعت ’’فأنصتوا‘‘ کی زیادت بیان نہیں کرتی۔ اس لیے سالم کا ابن ابی عروبۃ سے اس زیادت کو ذکر کرنا بے اصل ہے۔
معلوم ہوا کہ سالم کی زیادت کے شاذ ہونے کی چار وجوہات ہیں:
1. فردِ واحد کے مقابلے میں جماعت کی روایت کو ترجیح دی جائے گی۔
2. احفظ اور اوثق راویان کی روایت کو ترجیح دی جائے گی۔
3. خصوصی شاگردوں کی روایت کو ترجیح دی جائے گی۔
4. حافظ ناقد کی سند کو ترجیح دی جائے گی۔
لہٰذا عمر بن عامر کی متابعت شاذ ہونے کی بنا پر کالعدم ہے۔ محدثین نے صراحتاً اسے کالعدم قرار دیا ہے اور ان کا حدیث کی تحقیق کا اصول بھی اس زیادت کے شذوذ کا متقاضی ہے۔